إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله -صلى الله عليه وآله وسلم تسليماً كثيرا-. أعوذ بالله من الشيطن الرجيم، بسم الله الرحمن الرحيم۔
( ق وَالْقُرْآَنِ الْمَجِيدِ ١ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ ٢ أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ذَلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ ٣ قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ ٤ بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ) [ق:1 - 5]
“ق! بہت بڑی شان والے اس قرآن كی قسم ہے۔ بلكہ انہيں تعجب معلوم ہوا كہ ان كے پاس انہی ميں سے ايک آگاه كرنے والا آيا تو كافروں نے كہا كہ يہ ايک عجيب چيز ہے۔ كيا جب ہم مر كر مٹی ہو جائیں گے پهر يہ واپسی دور (از عقل) ہے۔ زمين جو كچھ ان ميں سے گهٹاتی ہے وه ہميں معلوم ہے اور ہمارے پاس سب ياد ركهنے والی كتاب ہے۔ بلكہ انہوں سچی بات كو جهوٹ كہا جبكہ وه ان كے پاس پہنچ چكی پس وه ايک الجهاؤ ميں پڑ گ ہيں۔”
(وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ ٣٨ مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ) [الدخان:38 - 39]
“ہم نے زمین اور آسمانوں اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ بلکہ ہم نے انہیں درست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔”
وقال اللہ سبحان وتعالی:
(وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ٥٦ مَا أُرِيدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ) [الذاريات: 56 -57]
“میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں۔ نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں نہ میری یہ چاہت ہے کہ یہ مجھے کھلائیں۔”
معزز سامعین کرام! آپ روزانہ اپنے ارد گرد انواع واقسام کی مخلوقات و کائنات دیکھ رہے ہوں گے۔ اللہ نے انہیں بےکار پیدا نہیں کیا۔ بلکہ انہیں انسان کے فائدے کےلیے پیدا کیا، اور انسان کو ایک عظیم حکمت ومقصد کےلیے پیدا کیا اور اسے کوئی ذمہ داری دیے بغیر مہمل نہیں چھوڑا، جس عظیم حکمت ومقصد کے لیے انسان کو پیدا کیا، اس میں اللہ تعالی ٰ نے جنا ت کو بھی شامل فر مایا۔ جیسا کہ سورۃالدخان اور الذاریات کی مذکورہ آیتوں سے واضح ہے۔ اللہ تعالی ٰ نے فرمایا:
(وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ ٣٨ مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ) [الدخان:38 - 39]
“ہم نے زمین اور آسمانوں اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ بلکہ ہم نے انہیں درست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔”
پس کائنات کو پیدا کرنے سے اللہ کی حکمت یا مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے اپنی جس عبادت کا انہیں حکم دیا ہے، وہ اسے خوشی خوشی بجا لائیں اور جو کچھ ان پر واجب کیا ہے، وہ اسے سمعاً وطاعتاً اپنی ذمہ داری سمجھ کر انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے رسولوں کو بھیجا، تاکہ وہ بندوں کو اپنے رب کا تعارف کرادیں، اور ان سے وہ مقصد بیان کردیں، جس کے لیے وہ پیدا کیے گئے ہیں۔ لیکن بندوں میں سے کوئی اس ہدایت کو قبول کر لیتا ہے اور کوئی اسے ٹھکرا دیتا ہے۔ اور اس طرح بندوں پر اللہ کی حجت قائم ہو جاتی ہے۔
محترم بھائیو! آپ اللہ تعالی ٰ کے اس قول پر غور فرمائیں:
( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ) [الذاريات: 56]
“میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں۔”
اور آپ اللہ تعالیٰ کے اس قول پر بھی غور فرمائیں:
( وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ) [النساء: 36]
“اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔”
عبادت کا عام مفہوم :
اسلام میں عبادت کی اصل اور بنیاد یہ ہے کہ تم دین کو اللہ کےلیے خالص کرو، اور وہ اس طرح کہ ہر قسم کی عبادت میں تم اللہ کو منفرد مانو۔ تم اللہ سے محبت، خوف اور امید کرتے ہوئے، اپنے دل کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ رہو۔ ہر ایک عبادت کو تم اللہ کے لیے انجام دو۔ تمہاری نماز اللہ کے لیے ہو، تمہاری دعا اللہ کےلیے ہو، تمہاری عاجزی و انکساری اللہ کے لیے ہو، تمہا را سچا خوف اللہ سے ہو، تمہاری مکمل امید اور پورا اعتماد اللہ پر ہو۔ پس تمہارے دل میں انتہائی درجہ کی تعظیم اللہ کے سوا اور کسی کےلیے نہ ہو۔ کیونکہ حقیقی تعظیم کا مستحق صرف اللہ ہے:
( ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ ) [الحج: 62]
“یہ سب اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے بھی یہ پکارتے ہیں وه باطل ہے اور بےشک اللہ ہی بلندی والا کبریائی والا ہے۔”
محترم بھا ئیو! اسلامی شریعت میں عبادت کا مفہوم عام ہے، اور دین ودنیا کے ہر اچھے عمل کو شامل ہے۔ چنانچہ عبادت ایک ایسا جامع لفظ ہے، جو تمام ان اقوال واعمال پر صادق آتاہے، جنہیں اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا اور پسند کرتا ہے۔ اور مسلمان اس دنیا میں یقین کرتا ہے کہ وہ بندہ ہے اور اس کی سچی عبودیت صرف اللہ کےلیے ہے۔ چنانچہ وہ اس عبودیت کوبروئے کار لانے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ وہ صحیح معنی میں اپنے رب کا بندہ بنا رہے۔ پس اس کےلیے اللہ کا بندہ ہونا صحیح معنی میں اس کےلیے شرف وفضل ہے۔ جو اللہ کے احکام کی تعمیل کرتا ہے، اس کی منہیات سے اجتناب کرتا ہے ، اور اس کے حدود کی پاسداری کرتا ہے، اور اس کے فرائض کو نافذ کرتاہے۔
عزیز بھا ئیو ! ہم اور آپ پر اللہ کا فضل ورحمت ہے کہ اس نے ہمارے لیے مختلف قسم کی عبادتیں متعین کیں ہیں؛ چنانچہ ان میں سے بعض عبادات قلبی ہیں، جو اللہ کےلیے اخلاص کے ساتھ دل میں انجام پاتی ہے۔ ایسی عبادت کی تمام اقسام میں صرف اللہ کا قصد کیا جاتا ہے، اور صرف اللہ کےلیے انجام دی جاتی ہیں۔ جبکہ بعض عبادتیں بدنی ہیں، جو پانچ نمازوں کی شکل میں ہیں اور جنہیں مسلمان دن اور رات میں پانچ مرتبہ ادا کرتا ہے۔ بعض عبادتیں مالی ہیں، جیسے یہ مختلف قسم کی زکاتیں ہیں، جنہیں مسلمان ایمانداری اور خوشی کے ساتھ اپنے رب کا تقرّب حاصل کرنے کی نیت سے نکالتا ہے۔ ایک عبادت وہ ہے جس میں اپنی چاہتوں سے نفس کو روکنا ہی اللہ کی اطاعت وعبادت ہے، جو فریضۂ روزہ کی شکل میں انجام دی جاتی ہے۔ اور بعض عبادتیں ایک ہی ساتھ مالی وبدنی دونوں نوعیتوں پر مشتمل ہیں۔ جیسے حج وغیرہ۔ یہ ایسی عبادت ہے، جو مالی اور بدنی دونوں عبادتوں کو شامل ہے۔ اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ ہے، جو مالی اور بدنی تمام عبادتوں میں سب سے افضل اور بڑی عبادت ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ مہربانی بھی کی ہے کہ اس نے ہمارے لیے متعدد قسم کے نوافل کو مشروع فرمایا۔ جیسے؛ نفل نمازیں، نفلی صدقات، نفلی روزے اور نفلی حج اورعمرہ وغیرہ۔ یہ سب ہمارے ایمان کو تقویت پہنچانے، ہمارے درجات بلند کرنے اور ہماری نیکیوں کو زیادہ کرنے کےلیے ہیں۔ لہذاہم پر یہ سب اللہ کا کرم ومہر بانی ہےجس کےلیے ہم اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کریں یا تعریف کریں کم ہے۔ سب تعریف اللہ کی ہے اور اسی قدر ہے، جس قدر اس نے اپنے نفس کی تعریف کی ہے۔
ہمارے اسلامی بھائیو! خواہ آپ کہیں بھی ہوں، آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلامی شریعت کو مکمل کر کے بھیجا ہے ، جس پر نہ کچھ زیادہ کیا جاسکتا ہے اور نہ کم۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ) [المائدة: 3]
“آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا۔”
ساتھ ہی شارع حکیم نے اعمال قبول کرنے کے لیے دواہم شرطیں متعین کر دی ہیں؛ چنانچہ جب ان میں سے کوئی ایک شرط بھی فوت ہوجائے تو وہ عمل باطل وبےکار ہوجائےگا:
پہلی شرط یہ ہے کہ عمل خالص اللہ کے لیے ہو، جوہر قسم کی ریاکاری وشہرت طلبی سے خالی ہو۔
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل صحیح ہو، اور اللہ کی شریعت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق ہو، نہ وہ شریعت سے زیادہ ہو اور نہ وہ بدعت ہو۔ کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی شریعت کو واضح طور پر پہنچا دیا ہے، اور دین کے اصول وفروع کو پوری طرح بیان فرما دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لائے وہ حق ہے اور صحیح وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق ہو، جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مخالف ہو، وہ باطل وگمراہی ہے، جن کاموں کو لوگوں نے خود ایجاد کر لیا ہو وہ گمراہی ہیں اور اور جنہوں نے ان کی اتباع وپیروی کی وہ گمراہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنَ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ) [القصص: 50]”اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے۔”
میرے مسلمان بھا ئیو! اس پر مزید آپ کو یقین ہونا چاہئے کہ آپ کی اپنی زندگی کے تمام تصرفات میں جب آپ اللہ کی خوشنودی کا ارادہ کریں گے، تو آپ کے وہ تمام اقوال واعمال جن میں آپ اللہ کے تقرّب کا ارادہ رکھیں گے، وہ سب کے سب اللہ کی عبادت میں شمار ہوں گے۔ اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئےجو مسلمان اپنے والدین کے ساتھ بھلائی واحسان کرتا ہے وہ اللہ کی عبادت کرتاہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے :”عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما قال: جاء رجل إلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم یستأذنہ فی الجھاد، فقال: أحی والداک؟ قال: نعم، قال: ففیھما فجاھد” (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب بر الوالدین وأنھما أحق بہ) “عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں جانے کے لیے اجازت طلب کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے والدین باحیات ہیں؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تم انہی دونوں کی خدمت کی کوشش کرو۔”اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی خدمت کو جہاد قرار دیا، جو میدان جہاد میں اترنے کے برابر ہوتا ہے۔ محترم بھائیو!آپ کا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا بھی عبادت ہے۔ کیونکہ اس طرح آپ سے ایک ایسے واجب کی ادائیگی ہوگی، جسے اللہ تعالیٰ نے آپ پر واجب کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی ٰ نے فرمایا:
( وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ) [النساء: 1]
" اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو۔"
عزیز بھا ئیو ! آپ کا اپنی اولاد کی پرورش اورتعلیم وتربیت پرخرچ کرنا بھی اللہ کی عبادت ہے:
“جاء فی روایۃ عن سعد…. عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:۔ ۔ وإنک لن تنفق نفقۃ إلا أجرت بھا، حتی اللقمۃ ترفعھا إلی فی إمرأتک۔۔” الحدیث (صحیح سنن أبی داؤد، کتاب الوصایا، باب مالایجوز للموصی فی مالہ:2864)
“حضرت سعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ۔۔ تم (جائز طریقے)سے جو کچھ بھی (اپنے رشتہ داروں پر ) خرچ کروگے، اس کا تمہیں ثواب ملےگا۔ یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی جسے تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے۔۔” الحدیث
اپنے بیٹوں اوربیٹیوں کی صحیح تربیت و رہنمائی کرنا اور ان کے لیے جائز طریقے کاانتظام کرنا بھی اللہ کی عبادت ہے۔ کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا) [التحريم: 6]
”اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔”
عزیز بھائیو ! تجارت، خرید وفروخت اور کاروباری سرگرمیوں میں جب آپ اللہ کی اطاعت اور امت کو نفع پہنچانے کا ارادہ شامل رکھیں گے، توآپ کو اپنی نیک نیتی پر ثواب ملےگا۔
عزیز بھائیو! شادی اورنکاح میں نفس کی پاک دامنی ، اپنی شرمگاہ کی حفاظت اور اپنی نظر کے بچاؤ کا ارادہ رکھنا، تمہاری طرف سے اللہ کی عبادت ہے۔ اور اللہ کی ایسی فرماںبرداری ہے، جس کے ذریعہ تم اللہ کا تقرّب حاصل کر سکتے ہو۔
محترم بھائیو! ان تمام خوبیوں پر مزید ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ جن جائز ومباح کاموں کو اپناتے ہیں، اور انہیں عملی جامہ پہنا نے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ان کے ذریعہ آپ اپنے رب کی فرماںبرداری کے لیے تقویت حاصل کریں، تو آپ کا ایسا ذریعہ اختیار کرنا بھی اللہ کی عبادت ہے۔
عزیز بھائیو!ہم سب کی عبادت اپنے رب کے لیے صرف ارکان اسلام پر ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ ان کے ساتھ عمومی طور پر ترک محرمات بھی عبادت ہے۔
محترم بھائیو! اللہ کی اطاعت کے لیے گھناؤنے کاموں سے بچنا بھی عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سلف نے حقیقت تقو یٰ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم اللہ کی ہدایت کے مطابق اللہ کی اطاعت کرتے ہو، تو یہ تمہارے لیے اللہ سے ثواب کی امید رکھنا ہوا۔ اور اگر تم اللہ کی ہدایت کے مطابق اللہ کی معصیت کو ترک کرتے ہو، تو یہ تمہارا اللہ کے عذاب سے ڈرنا ہوا۔
ایک مسلمان اپنی بیع وشر اء میں صادق القول رہے۔ نہ وہ جھوٹ بولے، نہ سامان کا عیب چھپائے، نہ خیا نت کرے اور نہ دھوکہ دے، تو یہ اللہ کی عبادت ہے۔ مخلوق کے حقوق کو ادا کرنا بھی اللہ کی عبادت ہے۔ دو جھگڑنے والوں کے درمیان صلح کرادینا بھی اللہ کی عبادت ہے۔ مصیبت زدوں اور تنگ دستوں کی پریشا نیوں کو دور کرنا بھی اللہ کی عبادت ہے۔
چنانچہ مسلمان کے اقوال واعمال میں، جب اس کی نیت اچھی ہو، اور اللہ کےلیے خالص ہو، تو تمام حالات میں اس کے یہ سارے کام، اللہ کی عبادت شمار ہوں گے۔ اور وہ ہمیشہ اللہ کی اطاعت پر قائم سمجھا جائےگا۔
محترم بھائیو! امت کے لیے عام بھلائی کی کوشش کرنا، بھی اللہ کی عبادت ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں انس رضی اللہ عنہ سےمروی ہے:
“ما من مسلم یغرس غرسا، ولا یزرع زرعا، فیأکل منہ إنسان، أو طائر، إلا کان لغارسہ الأول أجر” (البخاری، کتاب المزارعۃ، باب فضل الزرع والغرس، وصحیح مسلم، کتاب البیوع، باب فضل الغرس والزرع)
جو مسلمان کوئی پودا لگائے اور کوئی فصل بوئے پھر اس سے خواہ کوئی انسان کھائے یا کوئی پرندہ، بہر حال اس کے لگانے والے اور بونے والے کو ثواب ملےگا۔
آپ ملاحظہ فرمائیں کہ اسلام نے راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹا دینے کو بھی عبادت قرار دیا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:
“عن أبی ھریرۃ قال: قال رسول اللہ صلیاللہ علیہ وسلم الإیمان بضع وسبعون أو بضع وستون شعبۃ، فأفضلھا؛ قول: لا إلہ إلا اللہ، وأدناھا إماطۃ الأذی عن الطریق، والحیاء شعبۃ من الأیمان” (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان شعب الایمان)
“حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ستر یا ساٹھ سے زائد شاخیں ہیں۔ پس ان میں سب سے افضل؛ کلمہ لا الہ الا اللہ ہے۔ اور ان میں سب سے کم درجہ راستے سے (چلنے والوں کے لیے) تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔ جبکہ حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے۔”
“عن أبی ذر، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: … قالوا: یارسول اللہ! أحدنا یقضی شھوتہ وتکون لہ صدقۃ؟ قال: أرأیت لو وضعھا فی غیر محلھا، ألم یأثم؟ (صحیح سنن أبی داود، کتاب الصلاۃ، باب تفریع أبواب التطوع۔۔ رقم: 1143۔ 1285)
“حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صحابہ نے سوال کیا کہ اےاللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی اپنی شہوت پوری کرتا ہے، تو کیا یہ اس کے لیے صدقہ ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہاری کیا رائے ہے، اگر وہ اس شہوت کو حرام طریقہ سے پورا کرتا، تو کیا وہ گنا ہ گار نہیں ہو تا؟ (جب یہ کام حرام طریقے سے گناہ ہے، تو اس کے مقا بل یہ حلال طریقہ سے ثواب کا کام ہوگا۔ بلکہ مشروع طریقہ پر کوئی بھی لذت حاصل کرنا عبادت وکار ثواب ہے) ۔”
دیکھا آپ نے کہ اس طرح اسلامی شریعت نے مسلما نوں کو کس انداز میں خیر کی دعوت وترغیب دی ہے۔ اور اللہ تعالی ٰ نے ہمارے لیے خیر کے مختلف اسباب وذرائع بھی پیدا کیے ہیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل کی جا سکیں، درجات بلند ہوں اور خطا ئیں معاف ہوں۔
محترم بھا ئیو! آپ اللہ کی اطا عت پر ثابت قدم رہئے۔ عبادت بلاناغہ انجام دیتے رہئے اور اس سلسلے میں اکتاہٹ یا ملول کو دل میں جگہ نہ دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
( وَٱعۡبُدۡ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأۡتِيَكَ ٱلۡيَقِينُ ٩٩ ) [الحجر: 99]
”اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔”
آپ کا ارادہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ صرف فرض ادا ہو جائے۔ بلکہ آپ کا ارادہ صرف یہ ہونا چاہئے کہ اس کی ادائیگی اچھی طرح ہو، اور اس کا حق پورا ہوجائے۔ تاکہ آپ اس عبادت کو خوشی خوشی ، کھلے دل سے اور آنکھ کی ٹھنڈ ک کے طور پر ادا کریں۔ میرے بھائیو ! آپ اس جملہ کی معنویت پر غور کیجئے جسے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا: اے بلال! ہمیں نماز کے ذریعہ آرام پہنچاؤ۔” (مسند أحمد: 5/364 رقم:23088)نیز درج ذیل حدیث میں آیا ہے:
“عن أنس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:”جعلت قرۃ عینی فی الصلاۃ” (سنن النسائی، کتاب عشرۃ النساء، باب حب النساء، رقم:4940، صحیح بتحقیق الشیخ الألبانی)
“حضرت انس سے مروی ہے، رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا: میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز ہے۔”
بارک اللہ لنا ولکم فی القرآن الکریم ونفعنا وإیاکم بالآیات والذکر الحکیم”
قال اللہ سبحا نہ وتعالی:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ) [المائدة: 6]
”اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منہ کو، اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو۔”
سامعین کرام! آپ نے عبادت اور اس کی انواع واقسام اور خوبیوں کے بارے میں جو کچھ سنا، اسے اپنے دل ودماغ میں محفوظ رکھیں، اور یقین کریں کہ اللہ سے تعلق پیدا کرنے اور دل میں اطمینان حاصل کرنے کے لیے یہ عبادت آپ کے لیے اللہ کی ایک نعمت ہے۔ اور یہ آپ کو ان مادہ پرست ودنیا پرست لوگوں سے دریافت کرنے پر محسوس ہوگا ، جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ آپ مادہ پرستوں سے پوچھئے اوران لوگوں سے پوچھئے جنہوں نے اس دنیا کے فوائد اور اس کی خواہشات کا جس قدر بھی مزاچکھا، اور جس قدر بھی کھایا، یا پہنا، یا دنیا کی چیز وں سے فائدہ اٹھایا۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
( وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ ) [محمد: 12]
”اور جو لوگ کافر ہو گئے وه (دنیا ہی کا) فائده اٹھا رہے ہیں اور مثل چوپایوں کے کھا رہے ہیں، ان کا (اصل) ٹھکانہ جہنم ہے۔”
پھر اس عیش وآرام کے بعد کیا ہوگا؟ یعنی پھر ان کی لافانی زندگی جہنم کی آگ میں بہت ہی ہولناک رہےگی۔ اگر لوگوں کے دلوں کی گہرائيوں میں ایمان اچھی طرح بیٹھ نہ جائے۔ اگر وہ ایک اللہ کی بندگی اور س پر ایمان سےمشرف نہ ہو جائیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے لیے نماز نہ پڑھیں۔ اور وہ اس سے دن ورات پانچ بار نہ ملیں ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے حقیقی زندگی کو ختم کرلیا۔ اس زندگی کو ختم کر لیا جو روحانی، فکری ایمان اورصحیح عقیدہ والی زندگی ہو تی ہے۔
ایمان کے بغیر کون رہتا ہے؟ عقیدہ کے بغیر کون رہتا ہے؟ اور بغیر اللہ کی عبادت کے کون رہتا ہے؟ وہ جو جنگل کے درندے ہوتے ہیں، اور مویشی خانہ کے چوپائے ہو تے ہیں۔ لیکن جب وہ صحیح معنی میں ایک اللہ کے ماننے والے مومن ہوں گے، تو وہ ایمان کی زینت سے مزین ہوں گے۔ اسلام کی تعلیمات کے پابندہوں گے۔ وہ اپنے نفوس پر اس عظیم نظام کو نافذ کریں گے، جسے انسانیت اچھی طرح جان چکی ہے، اور وہ قیامت تک اس سے کوئی بہتر نظام نہیں پاسکتی۔ اس لیےضروری ہے کہ ہم ان لوگوں کوجان لیں جو دھوکہ کھائے ہوئے ہیں، جو اسلام دشمنوں کی طرف سے دیئے گئے تاثر کی پیچید گی میں الجھے ہوئے ہیں اور یہ دشمنان اسلام امت مسلمہ سے بھی ترک دین کامطا لبہ کر تے ہیں۔
ایسے مطالبہ کرنے والے اور دھوکہ دینے والے ہمارے عقیدے کے دشمن ہیں، اور ہمارے دین کے دشمن ہیں۔ ایسے لوگ درحقیقت ہمیں خسارے میں ڈالنا چا ہتے ہیں۔ اور وہ ہمارے ایمان اور اسلام کی وجہ سے ہم سے حسد کرتے ہیں۔ جبکہ ہمیں یقین ہے کہ اس امت کو عزت اور مدد، اس کے لیے توفیق وسعادت اور دینی ودنیوی امور میں ہدایت صرف اسلام پرعمل کرنے سےہی مل سکتی ہے، جو کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ اس بارے میں ہمارےدلوں میں ذرّہ برابر بھی شک نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں پورا یقین ہے اور ہمارا ٹھوس اعتقاد بھی۔
تاہم خدشہ ہے کہ شاید بعض مسلمان بچے ان کھوکھلے دعوؤں سے متاثر ہو جائیں، جنہیں دین اسلام سے کینہ رکھنے والے لوگ اپنے فن وتکنیک اورقلم کے ذریعہ نشر کرتے رہتے ہیں، خواہ وہ اپنے نام مسلمان جیسےکیوں نہ رکھتے ہوں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، جو دشمنان اسلام سے مرعوب ہیں، اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دلوں میں دنیوی چمک دمک سرایت کر چکی ہے۔ جسے وہ اپنی خود فریبی میں آخرت پر ترجیح دیئے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اپنی اطاعت پر ثابت قدم رکھے اور مذکورہ قسم کے لوگوں کو ہدایت کی تو فیق دے۔
کچھ لوگ عبادت کے بارے میں یہ غلط تصوّر رکھتے ہیں کہ عبادت صرف نماز، روزہ، زکاۃ اور حج وعمرہ میں محصور ہے۔ چنانچہ وہ ان عبادتوں کے علاوہ آپسی لین دین، تجارت اور معاملات میں شریعت کی خلا ف ورزی کرتے ہوئے، بلاجھجک سود اور رشوت میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ حا لانکہ انہیں ہر کام میں شریعت کی پابندی کرنی چاہئے۔
ہمیں اور آپ کو دین ودنیا کے ہرکام میں اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔
إن اللہ یأمر بالعدل والاحسان وإیتاء ذی القربی وینھی عن الفحشاء والمنکر والبغی، یعظکم لعلکم تذکرون، ولذکر اللہ أکبر، واللہ یعلم ما تصنعون۔