ذی الحجہ


3399
تفصیل
ذی الحجہ کا پہلا عشرہ برکت کے لحاظ سے سب سے زیادہ اہم وقت ہے۔ کیونکہ اللہ کے نزدیک اس کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اس عشرہ سے محبت کرتا اور اس کی قدر کرتا ہے تویہ دس مبارک دن ہیں۔ یہ بھرپور نیکیوں والے، برائيوں سے بچے جانے والے، بلند درجات حاصل کیے جانے والے اور طرح طرح کی کی نیکیاں کیے جانے والے دن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم کھائی ہے اور اور وہ اہم چیزوں ہی کی قسم کھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ایام کو دیگر ایما میں علی الاطلاق افضل ایام بناۓہیں ۔

إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، أما بعد!

اللہ رب العالمین نے ہم سب کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا، اور اس کے لیے کچھ ایسے مواسم طاعات کا انتخاب فرمایا جن میں عبادت بقیہ ایام کی بہ نسبت کہیں زیادہ افضل ہوتی ہے۔ چنانچہ مہینوں میں رمضان المبارک کو چنا۔ اور ان میں آخری دس راتوں کو اور ان میں لیلۃ القدر کو بقیہ سال بھر کی راتوں پر فوقیت دیتے ہوئے اس کا انتخاب فرمایا۔ جبکہ دنوں میں ذی الحجہ کے دس دنوں کو سال بھر کے تمام دنوں پر ممتاز قرار دیا۔ اور ان میں عرفہ، اور یوم النحر کو بقیہ ایام سے چنا۔ ایسے ہی جیسے انبیاء ومرسلین کو تمام مخلوقات سے چنا۔ اور ان میں پانچ اولو العزم رسولوں کو منتخب فرمایا ۔ فرشتوں میں جبریل ومیکا ئيل وغیرہ کو بقیہ لا تعداد فرشتوں سے ممتازقراردیا۔ اسی طرح وسیع وعریض دنیا کی آبادی میں مکہ مکرمہ کو پسند فرمایا۔ یہ سب اس لیے ہے تاکہ یہ امت کم سے کم وقت میں زیادہ نیکیاں حاصل کر سکے، گناہوں سے دور ہو کر رب العالمین کا تقرب حاصل کر سکے۔ متنوع طاعات وعبادات سے اپنے قیمتی اوقات کو مشغول کر کے جنت کی طرف بڑھ سکے۔ جس میں نیک بندوں کے لیے طرح طرح کی نعمتیں تیار رکھی گئی ہیں۔

قارئین کرام!مومن کی زندگی بڑی سعادت مند اور بابرکت ہوتی ہے۔ ہر حال میں اس کامعاملہ خیرخواہی کا ہوتا ہے۔ اگر خوشی ومسرت کے لمحات سے گزرتا ہے تو جسم کے اَنگ اَنگ سے شکر وسپاس کے ترانے بلند ہوتے ہیں۔ تعریف مولائے کریم میں رطب اللسان رہتا ہے۔ نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے الٰہ العالمین کی رضامندی کا طالب ہوتا ہے۔ اس کا ہر ہر عمل قابل تقلید ومثال ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ دست برد زمانہ کا شکار ہوتا ہے۔ اور مصائب وآلام کے گھیرے میں آتا ہے تو ناراضگی اور ہیجان کے بجائے صبر وتحمل کا پہاڑ بن جاتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر رضا وتسلیم کا اعلیٰ نمونہ بننے کی سعی پیہم کرتا ہے۔ بایں طور مومن اپنے تمام گوشہائے زندگی کو ثمر آور بناتا ہے اور خاص خاص مواقع پر ٹوٹ کر اپنے پیارے رب سے لولگاتا ، اپنی دکھڑا سناتا اور جی جان سے اس کے سامنے بچھ کر اپنی مرادیں طلب کرتا ہے۔

قارئین ذی احترام!انہیں مبارک موسموں میں سے ایک عظیم ترین موسم عشرہ ذی الحجہ کے ایام ہیں۔ جن کا رب العالمین کے نزدیک نہایت ہی اونچا مقام ومرتبہ ہے۔ ان کے عظیم المرتبت ہونے کی وجہ سے ایک جگہ رب العالمین نے ان دس ایام کی قسم بھی کھائی ہے، فرمان تعالیٰ ہے:

( وَالْفَجْرِ ١ وَلَيَالٍ عَشْرٍ) [الفجر:1 - 2]

“قسم ہے فجر کی! اور دس راتوں کی!۔”

جمہور مفسرین کے نزدیک فجر سے مراد یوم عرفہ کی نماز فجر ہے ۔ اور دس راتوں سے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔

رب العالمین کا ان ایام کی قسم کھانا درحقیقت ان کی بلندیِ عظمت کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ وہ عظیم چیز ہی کی قسم کھاتا ہے۔ جیسے عظیم ترین مخلوقات میں، آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، ہوائيں، نیز عظیم اوقات میں فجر، عصر، چاشت، رات دن نیز عظیم ترین جگہوں میں، مکہ مکرمہ کی قسم کھا کر ان کی عظمت اور بلندیِ مرتبہ پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ اس لیے ہمیں چاہئے کہ ان عظمت والے ایام میں کثرت سے نیک اعمال انجام دیں۔ برائیوں سے بچیں اور کمال محبت اور تمام انکساری وسرافگندگی کے ساتھ رب کی اطاعت وبندگی بجالائیں۔ اور میدان عمل میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی پوری جد وجہد کریں تاکہ دونوں جہان میں کامیابی سے ہمکنار ہو تے ہوئے اس کے عظیم عفو وکرم،رحم ومغفرت کے حقدار بن سکیں اور زبان حال سے گنگناتے ہوئے اقرار کریں :

یا رب إن عظمت ذنوبی کثرۃ، فلقد علمت أن عفوک أعظم، إن کان لا یرجوک إلا حسن فمن الذی یدعو ویرجو المجرم۔

“ اے میرے رب اگر میرے گناہ بہت زیادہ ہیں تو تیرا عفو ودرگزر اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ البتہ اگر تیرے کرم کی امید کے طالب صرف نیک ہی لوگ قرار پائیں تو مجرم وگناہ گار کس سے اپنی امیدیں وابستہ کریں اور کس کے درپر ندامت کے سرجھکائیں؟”

عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل :

دنیا کے تمام دنوں میں دس دن سب سے افضل ہیں :

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

“ما العمل فی أیام أفضل منھا فی ھذہ، قالوا: ولا الجھاد؟ قال: ولا الجھاد إلا رجل خرج یخاطر بنفسہ ومالہ فلم یرجع بشیء” (رواہ البخاری:969، ھکذا فی أکثر النسخ المعتمدۃ، وقدروی بلفظ: “ما العمل فی أیام العشر أفضل من العمل فی ھذہ، عند أحد رواۃ البخاری، لکنہ مرجوح کما ذکر ذلک ابن رجب فی شرحہ: 6/114، والحافظ ابن حجر: 2/532)

“ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں انجام دیے گئے اعمال سال بھر کے تمام دنوں میں انجام دیے جانے والے اعمال کی بہ نسبت زیادہ فضیلت والے ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا:جہاد بھی اس سے افضل نہیں؟ فرمایا:جہاد بھی نہیں، ہاں البتہ اگر کوئی شخص جان ومال سے نکلے ،پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہ آئے،یعنی شہید ہوجائے۔

اسی حدیث کے بعض الفاظ کچھ مزید وضاحت کے ساتھ مروی ہیں ،چنانچہ امام احمد نے اپنی مسند:1968، اور امام ابوداود نے اپنی سنن:2438 میں یہ الفاظ درج فرمائے ہیں:

“ما من أیام العمل الصالح فیھا أحب إلی اللہ عز وجل من ھذہ الأیام، یعنی أیام العشر۔ قالوا ولا الجھاد فی سبیل اللہ؟ قال: ولا الجھاد فی سبیل اللہ، إلا رجل خرج بنفسہ ومالہ ثم لم یرجع من ذلک بشیء”

“نیک اعمال ان دس دنوں کی بہ نسبت کسی بھی دن میں اللہ رب العالمین کے نزدیک محبوب نہیں ہیں صحابہ نے عرض کیا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا :جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، مگر کوئی شخص اپنی جان ومال کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے، پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہ آئے یعنی شہید ہوجائے۔”

اس روایت کی مزید تاکید جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہوتی ہے جو مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ مروی ہے:

“أفضل أیام الدنیا أیام العشر” (رواہ البزار وصححہ الألبانی کما فی صحیح الجامع الصغیر: 1133)

“ذی الحجہ کے یہ دس دن دنیا کے دنوں میں سب سےافضل ہیں۔”

حافظ ابن رجب اس حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں:یہ حدیث نص ہے کہ مفضول کام بھی فضیلت والے اوقات میں افضل ہوجاتا ہے جیسا کہ ذی الحجہ کے ان ابتدائی دس دنوں میں انجام دیئے گئے اعمال تمام افضل اعمال پر فائق ہوں گے، سوائے اس مجاہد کے جو راہ حق میں شہادت کے منصب پر فائز المرام ہوچکا ہے۔ دیکھئے: (فتح الباری: 6/115)

در حقیقت یہ عظیم فضیلت ان اعمال جلیلہ کی وجہ سے ہے جو ان ایام میں انجام پاتے ہیں۔ جن میں سرفہرست حج جیسی عبادت ہے۔ جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

“من حج ھذا البیت فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہ” (بخاری: 1820، ومسلم: 1350)

“ جس شخص نے بیہودہ گوئی اور ہر طرح کے گناہ سے بچ کر حج کیا وہ حج کے بعد اس طرح لوٹتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔”

گناہوں سے بچ کر سنت نبوی کے مطابق کیاگيا حج ہی حج مبرور ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں ہے:

“والحج المبرور لیس لہ جزآء إلا الجنۃ” (بخاری: 1773، ومسلم: 1349)

“حج مبرور کا بدلہ جنت ہے۔”

نیز حج گناہوں کے مٹانے کا سبب ہے جیسا کہ حضرت عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں ہے:

“أما علمت أن الإسلام یھدم ما کان قبلہ، و إن الھجرۃ تھدم ما کان قبلھا و إن الحج یھدم ما کان قبلہ” (مسلم:121)

“ کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام پہلے کے گناہوں کو مٹادیتا ہے ہجرت پچھلے گناہوں کو ختم کردیتی ہے اور حج سابقہ تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے۔”

عشرۂ ذی الحجہ کو یہ مقام اس وجہ سے بھی ہے کہ انہیں ایام میں ایک عظیم ترین دن ہے جس میں رب العالمین اپنے بندوں سے قریب ہو کر ان کو جہنم سے آزاد کردیتا ہے۔ جسے ہم یوم عرفہ کہتے ہیں اس عظیم دن کی فضیلت بیان کرتے ہوۓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

“ما من یوم أکثر من أن یعتق اللہ فیہ عبدا من النار من یوم عرفہ، و إنہ لیدنو ثم یباھی بھم الملائکۃ، فیقول ما أراد ھؤلاء؟”

“ کسی دن رب العالمین اپنے بندوں کو اس قدر جہنم سے آزاد نہیں کرتا جس قدر یوم عرفہ کو کرتا ہے۔ اس دن بندوں سے قریب ہوکر فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے: میرے یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟”

یہی دن در حقیقت حج کا اصل دن ہے جس میں سب سے بڑے رکن وقوف عرفات کی ادائیگی ہوتی ہے۔ اس کے مقام ومرتبہ کی وضاحت کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

“الحج عرفہ” (ترمذی: 889، نسائي: 3044، وصححہ الألبانی)

“ حج عرفہ کا نام ہے۔”

انہیں فاضل ایام میں یوم نحر بھی ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

“أعظم الأیام عند اللہ یوم النحر، ویوم القر” (أبو داود: 1767، وصححہ الألبانی)

“اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا دن یوم نحر (یعنی دس ذی الحجہ) ہے۔ پھر اس کے بعد یوم قر (یعنی منی میں ٹھر نے کا دن) ہے۔”

بالاختصاریہ دس دن نہایت ہی مبارک ایام ہیں جن میں رب العالمین نے جملہ عبادات قلبیہ وبدنیہ اکٹھا کردیا ہے۔ جنہیں انجام دے کر بندہ اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہوئے وسیع جنتوں کا مستحق قرار پاسکتا ہے۔ اللہ رب العالمین ہم سب کو اس کا اہل بنائے، آمین۔

ذی الحجہ کےابتدائی دس دنوں میں کرنے کے کام :

قارئین کرام ! ان فاضل ایام میں بہت سے اعمال مشروع ہیں، جن میں پنج وقتہ صلوات ، زکوۃ صدقات کے علاوہ یوم عرفہ کا روزہ رکھنا غیر حجاج کے لیے مسنون ہے۔ بلکہ اس ایک دن کا روزہ دوسال کے گناہوں کے کفارہ کا موجب ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:

“صیام یوم عرفہ احتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التی قبلہ والسنۃ التی بعدہ” (مسلم: 1162)

“عرفہ کے دن کا روزہ سابقہ اور لاحقہ سال کے گناہوں کوختم کردیتا ہے۔”

یہی وہ مبارک ایام ہیں جن میں حجاج کرام حج بیت اللہ کے شرف سے سرفراز ہوتے ہیں۔ اور آٹھ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر مناسک حج کا آغاز کرتے ہوئے وقوف عرفہ ومزدلفہ کرتے ہیں، طواف وسعی اورمنیٰ میں کنکر یاں مارتے ہوئے اپنے حج کو مکمل کرتے ہیں۔ اور رب کریم کے عطائے جزیل سے اپنی جھولیوں کو بھرتےہیں۔

ان فاضل ایام میں کثرت سے رب العالمین کا ذکر کرنا محبوب ترین اعمال میں سے ہے، رب کریم کا ارشاد ہے :

( لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ) [الحج: 28]

“اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقرره دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں۔ پس تم آپ بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔”

بہیمۃ الانعام (پالتو چوپایوں ) سے مراد :اونٹ، گائے، بکری، بھیڑاور دنبہ وغیرہ ہیں۔

ایام معلومات سے مراد:دو مشہور اقوال کی روشنی میں یا تو ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں یا یوم النحر اور اس کے بعد کےبقیہ ایام تشریق ہیں جن میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے۔

اسی طرح دنیوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جن کا تعلق تجارت وکاروبار اور حصول معاش کے متعدد وسائل سے ہے۔ (عام کتب تفاسیر) دوران حج ذکر کا حکم دیتے ہوئے باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

( فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ) [البقرة: 198]

“جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے پاس ذکر الٰہی کرو اور اس کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی، حالانکہ تم اس سے پہلے راه بھولے ہوئے تھے۔”

اعمال حج کی تکمیل کے بعد ذکر کا حکم دیتے ہوئے رب العالمین نے فرمایا:

( فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آَبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ) [البقرة: 200]

“پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیاده۔”

ان مبارک ایام میں ذکر واذکار کی اہمیت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

“عن ابن عمر عن البنی صلی اللہ علیہ وسلم قال: ما من أیام أعظم عند اللہ ولاأحب إلیہ العمل فیھن من ھذہ الأیام العشر، فأکثروا فیھن من التھلیل والتکبیر والتحمید” (رواہ أحمد: 2/75، 131)

“حضرت عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سال کے تمام ایام میں کوئی دن ایسا نہیں جس میں عمل صالح اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ عظیم اور محبوب ہو۔ اس لیے ان دنوں میں کثرت سے “لا إلہ إلا اللہ، اللہ أکبر” اور “الحمد للہ” کہنا چاہئے۔”

مگر یہ روایت کافی شہرت کے باوجود ضعیف ہے۔ اس کی سند میں ابو زیاد الہاشمی نامی ایک راوی ہے جو ضعیف ہے۔ ساتھ ہی اس روایت میں اس سے اضطراب واقع ہوا ہے۔ بایں طور کبھی اس نے مجاہد عن ابن عمر اور کبھی مجاہد عن ابن عباس روایت کیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے: (تمام المنہ للألبانی: 353)

مگر ان ایام میں کثر ت سے اذکار بالخصوص یوم عرفہ کو مسنون ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“خیر الدعاء دعاء یوم عرفۃ، وخیر ما قلت أنا والنبیون من قبلی: لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر” (رواہ الترمذی: 3585، وحسنہ الألبانی فی صحیحہ: 1503)

“ یوم عرفہ کی دعا سب سے بہتر دعا ہے۔ اور سب سے افضل دعا میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء نے جو کہی وہ ہے:

“لا إلہ إلا اللہ، وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وھو علی کل شیء قدیر”

“ معبود برحق اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں۔ ہر طرح کی بادشاہت اور تعریف اسی کے لیے ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔”

یہ اذکار مردوں عورتوں دونوں اصناف کے لیے مسنون ہے۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں:

“کنا نؤمر أن نخرج یوم العید حتی یخرج البکر من خدرھا، حتی یخرج الحیض فیکن خلف الناس فیکبرن بتکبیرھم ویدعون بدعاءھم، یرجون برکۃ ذلک الیوم وطھرتہ” (البخاری:971)

“ ہم عورتوں کو عید کے دن عیدگاہ کی طرف جانے کا حکم دیا جاتا۔ یہاں تک کہ پردہ نشین کنواری اور حائضہ عورتوں کو بھی نکلنے کا حکم دیا جاتا۔ تاکہ وہ لوگوں کے پیچھے رہ کر ان کی تکبیر کی طرح تکبیر کہیں اور عمومی دعاؤں میں شریک رہیں۔ اس امید میں کہ انہیں بھی اس دن کی برکت اور پاکی نصیب ہو۔

گھر، دوکان، مکان، بازار وغیرہ تمام جگہوں کو ذکر الہٰی سے آباد کرنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں بازار کی طرف نکل جا تے اور بلند آواز سے تکبیر کہتے۔ ان کی تکبیر سن کر لوگ بھی تکبیر کہتے ۔

بلکہ حضرت عمر اپنے خیمہ میں بلند آواز سے تکبیر کہتے، ان کی تکبیر سن کر مسجد اور بازار کے لوگ تکبیر سے آواز بلند کرتے یہاں تک کہ منی تکبیر سے گونج جاتی ۔

ابن عمر ایام تشریق میں بمقام منیٰ فرض نمازوں کے بعد، اپنے بستر ، خیمہ، بیٹھک وغیرہ تمام جگہوں میں چلتے پھر تے ان ایام میں تکبیر کہتے رہتے۔

ان مبارک ایام میں تکبیر کا یہ اہتمام خاص طور سے اس لیے بھی تھا کیوں کہ ذ کرالہی ہی سے دلوں کو سکون واطمینان ملتا، اور فرحت وانبساط میسر ہوتی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ) [الرعد: 28]

“یاد رکھو کہ اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔”

“ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔ سو اگر وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو دل میں یاد کرتا ہوں ۔ اور اگر وہ چند افراد پر مشتمل جماعت میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت مجھ سے قر یب ہوتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں۔اگر وہ ایک ہاتھ مجھ سے قریب ہوتا ہے تو میں اس سے پورے پہونچے بھر (یعنی دو ہاتھ کے مساوی) قریب ہوتا ہوں۔ اوراگر وہ چل کر میری طر ف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف آتاہوں۔”

اپنے رب کو یاد کرنے کا معاملہ اگر اس کیفیت، الفاظ اور کلمات کے ساتھ جاری رہا جو خود مولائےکریم کا دیا ہوا ہے تو رب العالمین بیش بہا ثواب سے نوازتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: پاکی آدھا ایمان ہے۔ الحمد للہ میزان کو بھردیتا ہے۔ اور (سبحان اللہ، الحمد للہ ) آسمان وزمین کے درمیانی خلاء کو بھردیتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دو کلمے رب العالمین کو بہت پیارے، زبان پربہت ہلکے، میزان میں بہت بھاری ہیں۔ وہ دونوں کلمے ہیں: (سبحان اللہ وبحمدہ، وسبحان اللہ العظیم)

حضرت سمرہ بن جند ب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو یہ چار کلمات بہت پیارے ہیں: “سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا إلہ إلا اللہ، واللہ أکبر” ان کلمات میں جس سے بھی ابتداء کریں کوئی حرج نہیں۔

ذکر کے یہ کلمات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پیارے تھے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میں زبان سے “سبحان اللہ، و الحمد للہ، ولا إلہ إلا اللہ، واللہ أکبر” کہوں تو یہ میرے لیے ہر اس چيز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع ہو۔ یعنی دنیا وما فیہا سے بھی بہتر۔

ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص اپنی زبان سے دس بار یہ دعا پڑھے:

“لا إلہ إلا اللہ، وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر”

تو وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ اس نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے چار جانوں کو خریدکر آزاد کردیا ہے۔

ان اذکار پر یہ اجر عظیم عام ایام میں ہے۔ لیکن اگر زبان ومکان کے تقدس کاحسین امتزاج بھی انسان کے ساتھ شامل حال ہو۔ اور ذی الحجہ کے ابتدائی مبارک دنوں کو ان اذکار سے معمور کیا جائے تو بات کچھ اور ہی ہوگی۔ اور رب کے فضل واحسان، اجر وثواب کی اور ہی شان ہوگی۔

قال اللہ تعالی:

( لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ ) [الحج: 37]

“اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ اس کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔”

اللہ رب العالمین کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں بلکہ صرف تقویٰ پہنچتا ہے۔

ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں جو اعمال مشروع ہیں ان میں ایک قربانی بھی ہے۔

قربانی در حقیقت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی یاد گار ہے جو انہوں نے رب العالمین کی اطاعت وفرمانبرداری کی اعلی ٰ مثال رقم کرتے ہوئے اپنےبعد آنے والوں کے لیےچھوڑی ہے۔ جس کا تذکرہ کرتے ہوئے رب العالمین نے ایک جگہ فرمایا:

( وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ ٩٩ رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ ١٠٠ فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ ١٠١ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ١٠2 فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ 103 وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ ١٠٤ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ١٠٥ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ ١٠٦ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ) [الصافات:99 - 107]

“اور اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میں تو ہجرت کر کے اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں۔ وه ضرور میری رہنمائی کرے گا۔ اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما۔ پھر جب وه (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لایئے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس نے (باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا۔ تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بےشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا، اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا۔”

ابراہیم علیہ السلام کی بہت سی عظیم قربانیوں میں یہ قربانی منفرد حیثییت کی حامل تھی۔ اس لیے رب العالمین نے اس کو نہ صرف شرف سے نوازا بلکہ قیامت تک کے لیے سنت قائمہ کے طور پر باقی رکھا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید کرتے ہوئے اپنے امتیوں کو اس کی طرف ابھارا اور خود زندگی بھر اس پر عمل فرماتے رہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دودنبہ کی قربانی کرتے تھے، اور میں بھی دو دنبہ کی قربانی کرتا ہوں۔ (بخاری:5553)

ایک اور روایت میں ہے کہ آپ دو خوبصورت دنبوں کی قربانی فرماتے بایں طور کہ آپ کا قدم جانور کے پہلو پر ہوتا اور زبان سے (بسم اللہ اللہ أکبر) کہتے ہوئے اپنے ہاتھ سے ذبح فرماتے۔ (بخاری: 5558)

اس حدیث سے قربانی کی سنیت معلوم ہوتی ہے اور یہ کہ اسے عید کی نماز کے بعد کرنی چاہئے۔

حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قربانی کا جانور نمازعید سے پہلے ذبح کردے تو وہ نماز کے بعد دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا تھا وہ بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرے۔

جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہوا سے ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی اپنے بال اور ناخن کو نہیں کٹوانا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے :جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور قربانی کا ارادہ ہوتو اپنے بال اور ناخن کو نہ نکالو۔

قارئین کرام! اس عظیم سنت کا ہمیں خوب خوب اہتمام کرتے ہوئے اپنے جانوروں کو موٹا اور فربہ کرناچاہئے۔ نیز ہر طرح کے ظاہری واضح عیوب سے پاک رکھنا چاہئے۔ اسی طرح ان دروس واسباق کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہئے۔ جو ہمیں اس عظیم شعار کی ادائیگی سے ملتے ہیں۔ اور رب کی رضا وخوشنودی کی حصول کے لیے جان ومال، دھن دولت، نیز مملکت حیات کو بےدریغ قربان کر دینے کاجذبہ بیدار رکھنا چاہئے۔ جانور کی قربانی درحقیقت ہمیں اپنے پیچھے باعزت زندگی گزارنے کا گرسکھاتی ہے۔ ایثار وقناعت کاجذبہ پیدا کرتی ہے۔ حرص وطمع جیسی مذموم طبائع کو کچل دینے، للچاتی ہوئی نگاہ کو مایوسی سے بدلنے کاعظیم سبق دیتی ہے۔

قارئین کرام! یہ ہیں ذی الحجہ کے مبارک دس ایام اور ان میں کیے جانے کے کام۔ اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں اس طرح کے مبارک لمحات وایام باربار نصیب کرے اور ان میں زیادہ سے زیادہ عمل صالح کی توفیق ارزانی بخشے، آمین۔





متعلقہ:




Ibrahim al-Dosari