إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله،
أما بعد! فان أصدق الحدیث کتاب اللہ، وأحسن الھدی ھدی محمد، وشر الأمور محدثاتھا، وکل ( وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ) [النساء: 43]
“اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضا حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو، اسے اپنے چہروں پر اور ہاتھوں پر مل لو۔”
محترم سامعین کرام ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
معزز بھائیو ! اللہ ہمیں اور آپ کو ہر بھلائی کی تو فیق عطا فرمائے!آپ کو یقین ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ حکمت والا ہے اور ہر آزمائش کے بارے میں جانکاری رکھتا ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے، وہ انہیں کبھی خوش حالی میں اور کبھی تنگ حالی میں آزماتا ہے، یہ سب آزمائش وامتحان اس لیے ہوتا ہے تاکہ حقیقی شاکر کا شکر اور حقیقی صابر کا صبر آزمائش کی کسوٹی پر ظاہر ہو جائے.
اس سلسلہ میں اللہ تعا لیٰ نے فرمایا:
( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ ) [محمد: 31]
“اور یقیناً ہم تمہارا امتحان کریں گے تاکہ تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو ظاہر کر دیں اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کر لیں۔”
اس سلسلہ میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث آئی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
“عجبا لأمر المومن إن أمرہ لہ کلہ خیر ولیس ذلک لأحد إلا للمومن إن أصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ، و إن أصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ” (صحیح مسلم، کتاب الزھد، باب المومن أمرہ کلہ خیر)
“ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے ہر کام میں اس کے لیے بھلائی ہے اور یہ چیز مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ اگر اسے خوش حالی پہنچتی ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، تو یہ شکر کرنا بھی اس کے لیے بہتر ہے یعنی اس میں اجر ہے۔ اور اگر اسے تنگ دستی لاحق ہوتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے بہتر ہے کہ صبر کرنا بھی بجائے خود نیک عمل اور باعث اجر ہے۔”
چنانچہ مومن کو پریشانی کے وقت صبر کرنا اور خوش رہنا چاہئے اور اس کے بہتر بدلے کے لیے پر امید رہنا چاہئے جس کا اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے۔
( إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [الزمر: 10]
“صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا اجر بغیر حساب دیا جاتا ہے۔”
کسی بھی مسلمان کو بلاء ومصیبت کی تمنا نہیں کرنی چاہئے اور اگر اللہ نے کسی کو اس میں مبتلا کیا تو اس پر صبر کرنا چاہئے اور اس سے نجات کے لیے اللہ ہی سے دعاء کرنی چاہئے۔
میرے بھائيو!آپ اپنی صحت اور جسمانی طاقت کے زمانے میں فرائض کے بعد حسب استطاعت نفلی عبادتوں کے ذریعہ کا تقرب حاصل کیجئے، آپ جب ایسا کریں گے۔ تو اگر آپ کے اندر نفلی عبادات کے کرنے کی طاقت نہیں رہےگی تو بھی اللہ تعالیٰ ان نفلی عبادات کے ثواب کا سلسلہ جاری رکھےگا جو آپ نے صحت وتندرستی کی حالت میں کی ہیں۔ اس کی دلیل ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
“إذا مرض العبد أو سافر کتب لہ مثل ما کان یعمل مقیما صحیحا” (صحیح البخاری، باب یکتب للمسافر مثل ما کان یعمل فی الإقامۃ، وصحیح سنن أبی داود، کتاب الجنائز، باب إذا کان الرجل یعمل عملا صالحا فشغلہ عنہ مرض أو سفر رقم: 2650۔3091)
“جب بندہ بیمار پڑتا ہے یا سفر کرتا ہے تو بھی اس کے نامۂ اعمال میں اسی کے مماثل نیک عمل لکھاجاتا ہے جو حالت اقامت وصحت میں وہ عمل کرتا تھا۔”
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نماز کی اہمیت وعظمت بتاتے ہوئے فرمایا: کہ وہ مخصوص اوقات میں مؤ منین پر فرض ہے:
( إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا ) [النساء: 103]
“یقیناً نماز مومنوں پر مقرره وقتوں میں فرض ہے۔”
محترم بھائیو!آپ کو یہ یقین ہوجانا چاہئے کہ نماز کی پابندی واہتمام کرنا مومن کے اخلاق وعادات میں شامل ہے۔
چنانچہ فرمایا:
( وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ٣٤ أُولَئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُكْرَمُونَ ) [المعارج:34 - 35]
“اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔”
بھائیو! بعض مسلمان کبھی نماز میں کوتاہی کرتے ہیں، لیکن سستی سے نہیں اور نہ ہی لاپرواہی سے، بلکہ کبھی انہیں کوئی شبہ ہوجاتا ہے جو ان کے لیے سبب بن جاتا ہے کہ وہ نماز کو اپنے وقت پر ادا نہ کریں یا چھوڑدیں، خاص کر وہ شخص جو کسی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے چنانچہ جس بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے وہ بیماری اسے نماز کو اپنے وقت سے موخر کرنے اور بیماری سے شفایاب ہونے کے بعد کسی وقت پڑھ لینے پر ابھارتی ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ یہ بیماری اسے نماز ادا کرنے سے اور اس کی شروط وواجبات کی تکمیل سے رکاوٹ بنتی ہے: چنانچہ آپ اسے نادانستگی کے سبب نماز میں ڈھیلائی کرتے دیکھیں گے، نہ اس میں اس کی سستی کا دخل ہے اور نہ لا پرواہی کا۔ اس سلسلہ میں صرف معلو مات کی کمی ہے۔
محترم بھائیو! یہ تو بالکل واضح بات ہے کہ نماز کے لیے طہارت وپاکی حاصل کرنا شرط ہے ، نماز کے لیے جسم کو ہر قسم کی نجاستوں سے پاک رکھنا ضروری ہے، ہوا نکلنے کے بعد، پیشاب وپاخانے کے بعد کپڑے وبدن کے جس جگہ میں نجاست لگ جائے اس کو اور جس جگہ پر نماز پڑھی جائے اس کو پاک کرنا ضروری ہے:
اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا:
( وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ) [المدثر: 4]
“ اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر ۔ “
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو آدمیوں میں سے ایک کے بارے میں فرمایا جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیاجارہا تھا:
“أما أحدھما فکان لا یستنزہ من البول” (صحیح البخاری من حدیث جابر)
“ لیکن ان دونوں میں سے ایک ایسا تھا کہ وہ اپنے پیشاب سے اپنے جسم وکپڑے کو صاف نہیں رکھتا تھا۔”
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
“عامۃ عذاب القبر فی البول، فاستنزھوا من البول” (بزار وطبرانی، وحاکم ودار قطنی، کتاب الطھارۃ، باب التنزہ من البول)
“ عام طور پر عذاب قبر پاؤں میں پیشاب کے چھینٹے لگنے ( پھر اسے نہ دھونے ) کی وجہ سے ہوتا ہے۔”
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“لا یقبل اللہ صلاۃ أحدکم إذا أحدث حتی توضا” (صحیح سنن أبی داود، کتاب الطھارۃ، باب فرض الوضوء رقم: 54۔60)
“ اللہ تم میں سے کسی کی نماز قبول نہیں کرےگا، جب وہ بےوضو ہو جائے۔ یہاں تک کہ وہ وضو کر لے۔”
میرے بھائیو!مذکورہ احکام طہارت استطاعت رکھنے والوں کے لیے ہیں۔ لیکن بسااوقات بیمار شخص خود طہارت حاصل کرنے سے عاجز ہوتا ہے۔ کھبی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی بیماری پانی سے استنجاء کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے اور بیمار شخص پانی سے اپنے اعضائے وضو دھو نہیں سکتا۔ کیونکہ پانی سے اعضاء دھو نے پر اس کی بیماری بڑھ سکتی ہے۔ یا زخم میں پانی تکلیف دہ ہو سکتا ہے یا کوئی اور سبب سے پانی استعمال کر نے سے معذور ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے پانی کے بدلے پاک مٹی سے تیمم کرنے کی اجازت دی ہے فرمایا:
( فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ) [النساء: 43]
“اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو، اسے اپنے چہروں پر اور ہاتھوں پر مل لو۔”
عمار بن یاسر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہتے ہیں:
“أما تذکر أنا کنا فی سفر، أنا وأنت فأما أنت فلم تصل، وأما أنا فتمعکت فصلیت فذکرت ذلک للنبی صلی اللہ علیہ وسلم، فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: إنما کان یکفیک ھکذا، فضرب النبی صلی اللہ علیہ وسلم بکفیہ الأرض ونفخ فیھما ثم مسح بھما وجھہ وکفیہ” (صحیح البخاری، کتاب التیمم، باب المتیمم ھل ینفخ فیھما، رقم: 338)
“ کیا آپ کو یاد نہیں کہ ہم اور آپ ایک سفر میں تھے تو آپ نے (پانی نہ رہنے کی وجہ سے ) نماز نہیں پڑھی۔ لیکن میں نے جسم کو زمین پر لٹا کر الٹ پلٹ کر کے نماز پڑھ لی۔ پھر اس واقعہ کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تیمم کا طریقہ بتا تے ہوئے) فرمایا کہ تمہارے لیے ایسا کرنا کافی تھا۔ پھر آپ نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر مارا اور ان میں ایک پھونک ماری (تاکہ زائد مٹی گر جائے) پھر ان دونوں سے اپنے چہرے کا اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کا مسح کیا۔”
اگر وضو کے لیے پانی نہ ملے اور نہ پانی کا کوئی بدل ہو تو وقت ہو جانے پر بغیر وضو کے ہی نماز ادا کرلے۔ کیونکہ تیمم کا حکم نازل ہو نے سے پہلے کچھ لوگ پانی نہ پانے کی وجہ سے بلا وضو نماز پڑھ لیے تھے۔ لیکن رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معلوم ہونے کے بعد انہیں دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم نہیں فرمایا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں آیا ہے:
“عن عائشۃ أنھا استعارت من أسماء قلادۃ فھلکت فبعث رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم رجلا فوجدھا فأدرکتھم الصلاۃ، ولیس معھم ماء، فصلوا، فشکوا ذلک إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأنزل اللہ آیۃ التیمم، فقال أسید بن حضیر لعائشۃ: جزاک اللہ خیراً، فواللہ ما نزل بک أمر تکرھینہ إلا جعل اللہ ذلک لک وللمسلمین فیہ خیراً” (صحیح البخاری، کتاب، التیمم، باب إذا لم یجد ماء ولا ترابا، رقم حدیث: 336)
“عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے اسماء سے ایک ہار عاریتاً لیا تھا۔ تو وہ کھو گیا۔ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کرنے کے لیے ایک آدمی کو بھیجا تو وہ ہار مل گیا، اسی دوران نماز کا وقت آ پہنچا اور ان کے پاس پانی نہیں تھا، جس سے وہ لوگ وضو کریں۔ چنانچہ ان لوگوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھ لی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی۔ تو اللہ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔ اس موقع پر اسید بن حضیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اللہ آپ کوجزائے خیر عطا فرمائے۔ اللہ کی قسم!آپ کو جب بھی کوئی ایسی بات پیش آئی جسے آپ ناپسند کرتی ہوں تو اس میں اللہ نے آپ اور تمام مسلمانوں کے لیے بھلائی ہی مہیا فرمائی ۔”
اللہ نے دین میں آسانی رکھی ہے جیسا کہ فرمایا:
( جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ) [الحج: 78]
“اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی۔”
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں:
“أصاب رجلا جرح فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ثم احتلم فأمر بالاغتسال، فاغتسل فمات، فبلغ ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فقال: قتلوہ، قاتلھم اللہ! ألم یکن شفاء العی السوال؟”
“ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی زخمی ہوگيا۔ پھر اسے احتلام ہوگیا تو کچھ لوگوں نے اسے غسل کرنے کا حکم دیا گيا۔ چنانچہ اس نے غسل کرلیا تو اس سے اس کی موت ہوگئی۔ پھر یہ خبررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ ان لوگوں نے اسے مار ڈالا۔اللہ ان کا برا کرے! کیا جہالت کی شفا پوچھ لینا نہیں ہے؟”
میرے عزیز بھائیو!اگر آپ کبھی اتفاق سے کسی بیماری میں مبتلا ہو جائیں تو بھی آپ کویہ علم رہنا چاہئے کہ نماز کی وقت پر ادائیگی ضروری ہے۔ آپ اسے ہر حال میں وقت پر ادا کریں اور اس کے وقت کا خیال رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو صرف اسی چیز کا مکلف کیا ہے جس کی وہ استطاعت رکھتے ہیں: بلکہ جس چیز کا مکلف کیا ہے اس میں آسانی اور سہولت بھی دی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
( وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ) [الأعراف: 157]
“ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ شریعت کی ڈالی ہوئی بھاری بوجھوں اور بندشوں کو ، جو ان پر لاگوتھیں ، تخفیف فرماتے ہیں۔
چنانچہ میرے بھائی! آپ بیماری کی حالت میں اگر کھڑے ہو سکتے ہیں تو کھڑے ہوکر نمازادا کریں۔ کیونکہ نماز میں کھڑا ہونا ارکان نماز میں سے ایک رکن ہے اور بیمار شخص پر واجب ہے کہ فرض نماز کھڑے ہو کر پڑھے۔ خواہ قدرے جھک کر، یا کسی چیز پر بیٹھ کر پڑھ لے۔
اگر وہ کھڑے ہونے سے قاصر ہے اور کھڑے ہونے میں اسے دشواری ہوتی ہے یا کھڑا رہنا اس کو تھکا دیتا یا پریشان کر دیتا ہے تو وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے، اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھنے سے بھی عاجز ہے تو لیٹ کے کروٹ پر،اگر اس سے بھی عاجز ہے تو چت لیٹ کر اشارے سے نماز ادا کرے۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں:
“کانت بی الناصور، فسألت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: صل قائما، فإن لم تستطع، فقاعدا، فإن لم تستطع فعلی جنب” (بخاری ومسلم وصحیح سنن أبی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فی صلاۃ القاعد رقم: 839، 952)
“ کہ مجھے ناسور (بو اسیر) کی بیماری تھی۔ تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ اگر تمہیں اس کی استطاعت نہ ہو۔ تو بیٹھ کر پڑھو۔ اگر تم بیٹھ کر پڑھنے کی استطاعت نہ رکھتے ہو تو۔ لیٹ کر پڑھ لو۔
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:
“أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاد مریضا، فرأہ یصلی علی وسادۃ، فأخذھا فرمی بھا، فأخذ عودا لیصلی علیہ، فأخذہ فرمی بہ وقال: صل علی الأرض إن استطعت و إلا فأوم إیماء و اجعل سجودک اخفض من رکوعک” (معرفۃ السنن و الآثار للبیھقی، کتاب الصلاۃ باب المریض)
“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیمار صحابی کی عیادت کی تو انہیں دیکھا کہ وہ تکیہ پر سجدہ کرتے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں۔ تو آپ نے اس تکیہ کو اٹھا کر پھینک دیا تو وہ ایک لکڑی پر سجدہ کرنے لگے۔ آپ نے اس لکڑی کو بھی پھینک دیا اور فرمایا کہ اگر استطاعت ہے تو زمین پر سجدہ کرتے ہوئے نماز پڑھو۔ ورنہ (بیٹھ کر یا لیٹ) کر اشارہ سے نماز پڑھو اور اپنے سجدوں کو اپنے رکو ع سے قدر ے پست کرو۔
چنانچہ میرے بھائی!آپ کھڑ ے ہو کر نماز پڑھیں۔ اگر آپ رکوع کرنے پر قادر ہیں تو کھڑے ہو کر رکوع کریں۔ اگر کھڑے ہو کر رکوع کرنا آپ کے لیے مشکل ہو تو بیٹھ جائیں اور اشارے سے رکوع کریں، پھر سجدوں کے لیے اشارہ کریں، یعنی رکوع کے وقت سرجھکا کر نیت کریں، کہ آپ اس شکل میں رکوع کر رہے ہیں۔ اور رکوع سے سر اٹھا کر پھر سجدوں کے لیے ذرا زیادہ سر جھکا کر نیت کریں کہ اس حالت میں آپ سجدہ کررہے ہیں ۔
اگر رکوع اور سجدوں کے لیے سر سے اشا رہ نہ کر سکیں تو اپنی آنکھ کے اشارے سے نماز ادا کرتے رہیں ۔
انگلی سے اشارہ کر کے نماز پڑھنے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ بعد میں پڑھ لینے کے انتظار میں نماز کو مؤ خر نہ کریں۔ کیونکہ آپ کی آخری سانس آپ کی تابع نہیں ہے۔
میرے محترم بھائیو! آپ یاد رکھیں کہ حالت جنگ میں دشمنوں سے معرکہ آرائی کے وقت بھی اللہ نے مسلمانوں پر نماز کی ادائیگی کو واجب کیا ہے تو آپ غور کیجئے کہ بغیر کسی خطرہ کے کسی بیماری کے وقت ایک مومن کی نماز کی ادائیگی کی تاخیر کیسے درست ہوسکتی ہے؟
إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله،
وقال اللہ تعالیٰ:
( وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) [البقرة: 149]
میرے محترم بھائی! آپ یہ بھی یاد رکھیں کہ نماز کی صحت کے لیے قبلہ رو ہونا شرط ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت 149 میں فرمایا:
“اور آپ جہاں سے بھی نکلیں نماز میں اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف کر لیں۔”
اور اگر قبلہ رخ ہونے کے درمیان کوئی چیز حائل ہوجائے یا اس کی چارپائی وبستر قبلہ کی جہت میں نہ ہو اور اسے مطلوبہ جہت کی طرف بدلنا بھی دشوار ہو تو آپ قبلہ کے قریبی رخ پر نماز ادا کر لیجئے۔ اس حالت میں قبلہ کا یہ فرق آپ کی نماز کی ادائیگی وصحت میں کوئی رکاوٹ نہیں بنےگا۔
بسااوقات بعض مریضوں کو یہ مشکل پیش آتی ہے کہ انہیں کوئی وضو کرانے والا نہیں ہوتا یا کبھی ان کے لباس وبستر نجاستوں میں ملوث ہو تے ہیں جن کا ازالہ وتبدیلی کی انہیں استطاعت نہیں اور کبھی وہ بیماری ایسی حالت تک پہنچا دیتی ہے کہ نماز کے کئی اوقات گز رجاتے ہیں اور مریض کا کپڑا وبستر ملوث رہتا ہے جن کی طہارت سے وہ عاجز رہتا ہے۔ ایسی حالت میں بھی وہ نماز نہ چھوڑ ے اور نہ مؤخر کرے۔ بلکہ اسی حالت میں نماز ادا کر لے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ اس مریض کا حال ومستقبل سب کچھ جانتا ہے۔
اگر آپ زخمی ہیں اور ان زخموں سے مواد وخون رس رہے ہیں۔ تو بھی آپ اپنی اسی حالت میں نماز پرھ لیں۔
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
“أنہ دخل علی عمر بن الخطاب من اللیلۃ التی طعن فیھا، فأیقظ عمر لصلاۃ الصبح، فقال عمر: نعم، ولا حظ لمن ترک الصلاۃ، فصلی وجرحہ یثعب دما” (مؤطا مالک، کتاب الطھارۃ، باب العمل فیمن علیہ الدم جرح أو رعاف)
“ کہ وہ عمر بن خطاب کے پاس اس رات میں آئے، جس میں آپ کو چھرا مار کر زخمی کردیا گيا تھا، انہوں نے آپ کو فجر کی نماز کے لیے جگایا تو وہ بولے: ہاں اس شخص کا کوئی حصہ نہیں جو نماز چھوڑے۔ پھر آپ نے اسی حالت میں نماز پڑھی کہ آپ کے زخم سے خون ٹپک رہا تھا۔”
میرے عزیز بھائیو!آپ لوگوں نے اندازہ لگا لیا کہ ایسے ہوتے ہیں اللہ کو یاد رکھنے والے دل۔ اور ایسے ہوتے ہیں اللہ پر ایمان ویقین رکھنے والے قلوب۔ جنہیں خون بہانے والا زخم بھی نماز کی ادائیگی واہتمام سے نہیں روکتا۔
محترم بھائیو! حضرت مسور اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے مذکورہ واقعہ سے ان مسلمانوں کو سبق لینا چا ہئے جو لوگ گھر میں یا ہسپتال وغیرہ میں مریض کی برابر دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہ اللہ سےڈریں اور مریض کی نماز کے لیے مدد کریں۔ اور اسے نماز کی یاد دہانی کرائیں۔ جب جب نماز کا وقت آجائے تواس کی ادائیگی میں اس کی مدد کریں۔ خاص کراگر آپ کے پاس آپ کے بوڑھے باپ یا بوڑھی ماں موجود ہوں۔ پس آپ پر لازمی ہے کہ ان دونوں کے بارے میں اللہ سے ڈریں اور اس عمل صالح پر ان کی مدد کریں۔ انہیں نماز کی یاددہانی کرائیں اور ان کی مشکلات کو ہلکا کریں اور ہر مناسب عمل سے اس فریضہ کی ادائیگی پر ان کی مدد کریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
( وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ) [طه: 132]
“ اپنے گھرانے کے لوگوں پرنماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما ره۔”
نیز مسلمان ڈاکٹروں کو چاہئے اور اسی طرح ہسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ ریکھ کرنے والوں کو بھی کہ وہ اللہ کے لیے مسلمان مریضوں کو نماز کے وقت کی یاددہانی کا ضرور اہتمام کریں۔ بلکہ اللہ کی طرف سے یہ ان کی ذمہ داری ہے۔
ایک حدیث شریف میں آیا ہے:
“ألا کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ ۔۔ الحدیث” (صحیح سنن أبی داؤد رقم: 254۔ 2928)
“یاد رکھو کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اپنے ماتحتوں کے بارے میں ۔۔۔ الحدیث۔”
چونکہ تمام مریض جو ہسپتال میں ایڈمیٹ ہیں وہ ڈاکٹروں کی نگرانی وماتحت میں ہوتے ہیں۔ لہذا مسلم ڈاکٹروں کی شرعی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اپنے ماتحت مسلم مریضوں کو نماز کی یاددہانی فرمائیں۔
نماز کی حفاظت کرنے والوں کو اللہ نے بہت بڑے اجر وثواب کا وعدہ کیا ہے۔ نماز کی حفاظت اور اس کے وقت کی یاددہانی کرانے والوں کو بھی یہی خوشخبری ہے۔ کیونکہ اچھے کام کا بتانے والا بھی ثواب میں اچھے کام کرنے والا جیسا ہوتا ہے ۔ اللہ نے نماز کی حفاظت کرنے والوں کا یہ ثواب بتا یا ہے:
( الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ) [المؤمنون: 11]
“جو فردوس کے وارث ہوں گے جہاں وه ہمیشہ رہیں گے۔”
اللہ سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں اور آپ کو نماز کی محافظت اور اس کی مداومت کرنے والوں میں سے بنائے، بےشک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔