نماز کی اہمیت اور اس کی تشریعی حکمت


5437
تفصیل
نماز دین کا ستون اور شہادتین کے بعد اس کا ایک اہم رکن ہے۔ بندہ سے قیامت کے دن سب سے پہلے نماز ہی کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی۔ یہ آخری وصیت ہے جس کی وصیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتے وقت اپنی امت کو کی۔ بلکہ صحابۂ کرام اس شخص کو منافقین میں سے شمار کرتے تھے جو جماعت کی نماز میں نہیں آتا تھا۔ نماز کی اہمیت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلا کسی واسطے کے فرض ہوئی ہے۔

إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذبالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا،من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله،أمابعد!

فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

( وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ) [الروم: 31]

اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔

”وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: “بنی الإسلام علی خمس: شھادۃ أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمدا رسول اللہ، وإقام الصلاۃ وإیتاء الزکاۃ، وصوم رمضان، وحج البیت من استطاع إلیہ سبیلا” (متفق علیہ)

حاضرین کرام! اگر اسلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ پورا اسلام دوحصوں پر مشتمل ہے؛ایک دل ودماغ سے یقین کرنے اور سچ جاننے والا حصہ، جس کو عقیدہ سے تعبیر کرتے ہیں، اور جو دوسرے حصے کی قبولیت کی بنیاد ہے۔اور دوسرا حصہ وہ ہے جو جوارح یعنی ہاتھ اور پاؤں سے انجام دیا جائے، یعنی وہ عمل جو پہلے حصے کی صداقت پر دلالت کرتا ہے۔ تو اس دوسرے حصے کے تمام مشمولات (اعمال صالحہ) میں سب سے پہلا مقام اور درجہ نماز کا ہے۔ جیسا کہ فرمان نبوی ہے:”بنی الإسلام علی خمس:شھادۃ أن لا إلہ إلا اللہ، وأن محمدا رسول اللہ، وإقام الصلاۃ وإیتاء الزکاۃ، وصوم رمضان، وحج البیت من استطاع إلیہ سبیلا” (متفق علیہ) نماز کا درجہ اعمال صالحہ میں ٹھیک اسی طرح پہلا ہے، جیسے ایمانیات یعنی چھ ایمان لانے والی باتوں میں اللہ پر ایمان کا درجہ ہے۔ سلف صالحین کا جو یہ عقیدہ ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں، تو ان اعمال سے سارے (یعنی ستر۷۰) اعمال صالحہ مراد نہیں ہیں۔ یا تو صرف نماز مراد ہے، یا نماز کے ساتھ اس حدیث میں مذکور بقیہ تین اور اعمال مراد ہیں۔ عبد اللہ بن شقیق (تابعی) کی روایت کے مطابق صحابۂ کرام، اعمال میں سے کسی عمل کے ترک کو کفر قرار نہیں دیتے تھےسوائے نماز کے (رواہ الترمذی ومحمدبن نصر المروزی فی تعظیم قدرالصلاۃ، صححہ الألبانی فی صحیح الترغیب رقم:564)۔

اس اثر صحابہ سے واضح ہوگيا کہ تمام اعمال میں نماز ایک ایسا عمل ہے، جس کا ترک ایمانیات کے چھ اجزاء میں سے کسی ایک جزو کے ترک کی طرح کفر کو لازم کرتا ہے۔

حاضرین ! یہی وجہ ہے کہ بعض اکابر صحابہ ؓکے نزدیک بھی بےنمازی کافر ہے۔ اس کا دین سے کوئی تعلق باقی نہیں رہ جاتا۔ ان صحابہ ٔکرام (رضوان اللہ علیہم) کے اقوال ملاحظہ فرمائيں:

۱۔ حضرت عمر فاروق: “لاحَظ فی الإسلام لمن لا صلاۃ لہ” “اس آدمی کا اسلام میں کچھ بھی حصہ نہیں، جس کے پاس نماز نہیں “۔

اسی طرح ان کا ایک قول ہے:

“لا إیمان لمن لاصلاۃ لہ” “اس کے پاس ایمان ہی نہیں، جس کے پاس نماز نہیں۔”

۲۔ابن مسعود: “من لم یصل فلا دین لہ” “جو نماز نہیں پڑھتا، اس کے پاس دین ہی نہیں۔”

یہ سب اقوال؛ "تعظیم قدرالصلاۃ لمحمد بن نصر المروزی" میں مروی ہیں۔

حاضرین! صحابہ کرام قرآن وسنت کے اوّلین اور بزبان رسالت مآب دین کے معتبر شارحین ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نماز کی بابت ارشاد باری تعالیٰ اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح ہی میں صحابہ نے ترک نماز پر مذکور ہ حکم لگا یا ہے۔

ارشاد باری یہ ہے:

( وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ) [الروم: 31]

اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔”

اگر اس آیت سے بےنمازی کو کافر نہ بھی قرار دیں تب بھی اتنا تو ثابت ہی ہوتا ہے کہ ترک نماز مشرکین ہی کا شیوہ ہے۔

اور اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

“لیس بین العبد وبین الکفر إلا ترک الصلاۃ” (صحیح مسلم، کتاب الإیمان: 35)

“بندے اور کفر کے درمیان فاصل نماز کا ترک ہی ہے۔”

نیز ارشاد ہے:

“العھدالذی بیننا وبینھم الصلاۃ،فمن ترکھا فقد کفر” (سنن النسائی، کتاب الصلاۃ باب:8) الترمذی،کتاب الإیمان باب:9 عن بریدۃ)

“ ہمارے (مسلمانوں) اور ان کے (یعنی مشرکین کے) درمیان نماز ہی حد فاصل ہے۔ پس جس نے نماز چھوڑدی اس نے کفر کیا”

اسلام میں نماز کی اتنی اہمیت ہے کہ قرآن میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے نماز کوایمان کہا ہے، ارشاد ہے:

(وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ) [البقرة: 143]

”اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان ضائع نہ کرے گا۔”

یعنی جو لوگ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے ہوئے وفات پاگئے، اب خانۂ کعبہ کی طرف تحویل قبلہ ہو جانے سے ان کی نمازوں کو اللہ تعالیٰ برباد نہیں کرےگا (صحیح بخاری، کتاب الإیمان، باب الصلاۃ من الایمان) ۔ نماز کو لفظ “ایمان”سے تعبیر کرنے کی وجہ یہی ہے کہ اعمال صالحہ (جو ایمان میں داخل ہیں) میں نماز کو اوّلین درجہ حاصل ہے۔ دیگر اعمال صالحہ کے مقابلےمیں نماز کویہ بھی حیثیت حاصل ہے کہ نماز نہ ہونے کی صورت میں اللہ کے نزدیک کوئی بھی نیک عمل قبولیت کا درجہ حاصل نہ کر سکےگا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:”إن أول مایحاسب لہ بہ العبد لصلاتہ، فإن صلحت فقد أفلح وأنحج، و إن فسدت فقد خاب وخسر” (نسائی، کتاب الصلاۃ، بابالمحاسبۃ علی الصلاۃ:465، الترمذی، کتاب الإیمان باب:189)۔

یعنی بندے سے حقوق اللہ میں سب سے پہلے نماز کے بارے میں پرسش ہوگی۔ اور اگر نماز ہی بےکار رہی، تو وہ خائب وخاسر ہوگا۔ یعنی نہ تو اس کا روز ہ قبول ہوگا، نہ حج اور نہ زکاۃ۔ امام ابن قیم الجوزیہ نےاس حدیث سے بےنمازی کے کافر ہونے پر استد لال کیاہے۔ (کتاب الصلاۃ لابن قیم الجوزیۃ)

اس حدیث کو فارسی شاعر نے یوں تعبیر کیا ہے۔ یہ شعر اکثر مساجد کے دروازوں اور محرابوں پر لکھا ہو تا ہے:

روز محشر کہ جان گداز بود اوّلین پرسش نماز بود

یعنی محشر کے دن جب نفسی نفسی کا عالم ہوگا، بندے سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائےگا۔

اسلام میں نماز کی اہمیت اور مقام ومرتبہ کا اندازہ اس بات سے بھی ہو تا ہے کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وقت، اور جان کنی کے عالم میں، جو آخری وصیت امت کو کی تھی، وہ نماز ہی کی وصیت تھی۔ آپ پر جان کنی کی حالت طاری تھی، اور آپ فرما رہے تھے: “الصلاۃ الصلاۃ” یعنی نماز کا خیال رکھنا ، نماز کا خیال رکھنا۔

اور اللہ کے سب سے پیا رے رسول کو اس دنیائے فانی کے اسباب واموال میں جو چیز سب سے زیادہ عزیز تھی، ان میں عورتیں اور خوشبو تھی۔ مگر آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہی میں تھی، فرماتے ہیں:

“حبب إلی من دنیاکم: النساء والطیب، وجعلت قرۃ عینی فی الصلاۃ: (النسائی عشرۃ النساء، حدیث رقم:3391)

“مجھے دنیاکی چیزوں میں عورتیں اور خوشبو بہت محبوب ہیں، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں کردی گئی ہے۔”

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کبھی گھبراہٹ کا سامنا ہوتا تھا، تو آپ فوراً نماز کی طرف رجوع فرماتے تھے۔ (د/الصلاۃ:312، ح1319/حسن)

قرآن میں بھی ایسی حالت میں نماز سے استعانت کا حکم دیا گیا ہے، ارشاد باری ہے:

(وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ) [البقرة: 45]

”اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔”

نماز اگر حقیقی معنوں میں نماز ہو، تو نمازی کو ہر طرح کی برائیوں اور فحاشیوں سے روک دیتی ہے۔ ارشادباری ہے:

(إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَر ) [العنكبوت: 45]

”یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔”

آج ساری دنیا میں جرائم کا دور دورہ ہے۔ حکومتیں، قانون سازادارے، عدالتیں، سی آئی ڈی، سب حیران وپریشان ہیں۔ مگر “مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” کامعاملہ ہے۔ اس سلسلے میں مذکورہ ارشاد ربانی کی روشنی میں نماز بہت ہی ممدومعاون ہے۔ بشرطیکہ خلوص دل سےادا کی جائے۔ ایمان اور عقیدہ کے بعد اعمال میں نماز سب سے پہلا فرض ہے جس کی ادائیگی کے بغیر ایک آدمی مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ اس کو بےشمار دنیوی واخروی فوائد اور انعامات سے بھی نوازتا ہے۔ دنیوی فوائد میں یہ کیا کم ہےکہ نماز سے آدمی کے دل کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ وہ سکون جس کا موجودہ انسان حد درجہ متلاشی ہے؛ مگر حاصل نہیں کرپاتا۔ کیونکہ وہ اسے الہٰی اسباب کے سوا دوسرے اسباب میں تلاش رہاہے۔ جبکہ انسان کے خالق کا فرمان ہے:

( أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ) [الرعد: 28]

”یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔”

اور اللہ کے ذکر میں، سب سے بڑا ذکر نماز ہی ہے۔اور اُخروی فوائد میں سے ایک فائدہ تو وہ ہے، جسے باری تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا:

(قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ١ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ) [المؤمنون: 1 - 2]

“یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں۔” اس کے بعد فلاح پانے والوں کے چند اوصاف بیان کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے:

(وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ٩أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ) [المؤمنون: 9 - 10]

“ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔ یہی وارýث ہیں ( جنت کے)”۔

جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں یہی جنت کے وارث ہیں

حاضرین کرام!لیکن یہ سارے دنیوی واُخروی فوائد اسی وقت حاصل ہوں گے، جب نماز کو اس کی شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے۔ صحت اور کمال نماز کی شرطوں میں ظاہری اور باطنی دونوں شرطیں ہیں اور دونوں کا لحاظ کیے بغیر نماز فائدہ نہیں دیتی۔

ظاہری شرطیں تو وہ ہیں، جن کے بغیر نماز سرے سے ادا ہی نہیں ہوتی۔ جیسے؛چھو ٹی بڑی پاکی، جسم اور جگہ کی پاکی،سترپوشی اور استقبال قبلہ اور سنت کے مطابق ادائیگی وغیرہ۔ اورباطنی شرائط میں سب سے پہلی شرط؛ اخلاص ہے، اور دوسری شرط: خشوع وخضوع ہے، جو در اصل نمازکی بار گاہ الہیٰ میں قبولیت کی اہم ترین شرطیں ہیں۔ خشوع وخضوع کی ظاہری علامت تعدیل ارکان ہے۔ اور باطنی کیفیت یہ ہے کہ نماز اس طرح پڑھی جائے کہ جیسے نمازی اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ اور اگر یہ کیفیت نہ پیدا ہو سکے، تو کم از کم یہ کیفیت تو پیدا ہو کہ اللہ نمازی کو دیکھ رہاہے۔ اسی مفہوم کو حدیث جبریل میں اس طرح تعبیر کیا گیا ہے:

“الإحسان أن تعبد اللہ کأنک تراہ، فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک” (متفق علیہ)

“احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کروکہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو، تو کم از کم یہ کیفیت تو پیدا کرو کہ اللہ تم کو عبادت کرتے ہوئےضرور دیکھ رہاہے۔”

اس بابت حدیث “مسی الصلاۃ” کونظر میں رکھنا ضروری ہے۔ وہ حدیث یہ ہے کہ ایک بار ایک صحابی نے مسجد نبوی میں نماز پڑھی۔ نماز پڑھنے کے بعد اللہ کے رسول کے پاس جا کر سلام کیا۔ آپ نے فرمایا: “إرجع فصل فإنک لم تصل” “جاؤدوبارہ نماز پڑھو۔کیونکہ تم نے (کماحقہ) نماز نہیں پڑھی”

اس طرح تین بار ہوا۔ تو صحابی نے عرض کیا:اللہ کےرسول! میں اس سے بہتر نماز پڑھ نہیں سکتا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا صحیح طریقہ ان کو بتایا۔ جس میں آپ نے خاص بات یہ بتلائی کہ قیام، رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ بین السجدتین، جلسۂ استراحت، سب کے سب خوب اطمینان سے ادا کرو۔ (متفق علیہ)

لیکن افسوس کہ فی زمانہ مسلمانوں کی اکثریت گویا نماز میں کبوتر کے دانہ چگنے کی طرح اُٹھک بیٹھک کرتی ہے۔ اور اس پریہ غرہ کہ ہم نمازی ہیں، اس کے باوجود وعدۂ الہٰی سے محروم ہیں؟ تو ایسے نمازيوں سے عرض ہے کہ تمہاری نمازتو تمہارے منہ پر مار دی جار ہی ہے۔ تو پھر کیسے وعدۂ الہٰی پورا ہوگا؟

اَخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا گوہیں کہ دم آخریں تک ہمیں صحیح طریقے سے نماز ادا کرتے رہنے کی توفیق دے اور سابقین اوّلین جو نبوی طریقہ پر نماز ادا کرتے ہوئےاس دنیا سے رخصت ہو گئے انہی کے ساتھ قیامت کے دن ہمارا حشرونشر ہو۔ “وحسن أولئک رفیقا”۔ وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین .

أما بعد: فقد قال اللہ تعالی فی القرآن العظیم، أعوذباللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم:

(وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ) [البقرة: 43]

”اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔”

“وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: صلاۃ الرجل فی جماعۃ تزید علی صلاتہ فی بیتہ، وصلاتہ فی سوقہ بضعا وعشرین درجۃ” (متفق علیہ)

حاضرین کرام! نماز کے منجملہ دیگر شرائط کے علاوہ ایک شرط نماز کا جماعت سے ادا کرنا بھی ہے۔ صرف یہی نہیں کہ جماعت سے نماز کی ادائیگی پر پچیس سے ستائیس گنا اجر وثواب ملتا ہے؛بلکہ محققین کی ایک جماعت، جماعت سے نماز کی ادائیگی کو فرض قراردیتی ہے۔ اور ان کی رائے میں کافی وزن بھی ہے۔

ارشادنبوی ہے:

“لقد ھممت أن أمر بالصلاۃ فتقام، ثم آمر رجلا فیصلی بالناس، ثم انطلق معی برجال، معھم حزم من حطب إلی قوم لا یشھدون الصلاۃ، فأحرق علیھم بیوتھم بالنار” (متفق علیہ)

“کبھی میراارادہ ہو تا ہے کہ نماز کھڑی کرنے کا حکم دوں، پھر ایک شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کونماز پڑھائے اور میں چند آدمیوں کو لے کر جن کے ساتھ لکڑیوں کے گٹٹھر ہوں، ان لوگوں کے پاس جاؤں، جو نماز کے لیے جماعت میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔”

بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی کہ گھروں میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں، جن پر جماعت سے نماز ادا کرنا فرض نہیں ہے۔ جیسے؛ عورتیں،بچے، غلام اور مریض۔

نماز باجماعت کی اہمیت پر عظیم ترین فقیہ اور صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے روشنی پڑ تی ہے: “تم ان پانچوں نمازوں کو پابندی سےوہاں ادا کرو، جہاں ان کے لیے ندا دی جاتی ہے۔ کیونکہ یہی ہدایت کی راہ ہے۔ اور ہم صحابۂ رسول تو یہ سمجھتے تھے کہ نمازباجماعت سے وہی غیر حاضر رہتا تھا، جو کھلا ہوا منافق ہوتا تھا۔ ہم تو یہ دیکھتے تھے کہ کوئی معذور آدمی دو شخصوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر چلایا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کو صف میں لاکر بٹھا دیا جاتا تھا۔

تم میں سے ایسا کوئی شخص نہیں جس کے گھرکے قریب مسجد نہ ہو؛ لیکن اگر تم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ چھوڑ دیا، تو تم گمراہ ہوجاؤگے۔ ایک روایت میں ہے کہ کافر ہو جاؤگے۔ (صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب رقم:44، حدیث رقم: 654/ سنن أبی داؤد حدیث رقم:55)

کم از کم جوآدمی اذان کی آواز سن لے، اس پر تو جماعت واجب ہی ہے۔(سنن أبی داýود، رقم:551-552)

نماز باجماعت کی اہمیت پر اس حدیث سے بھی روشنی پڑ تی ہے۔

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمی کسی بستی یاجنگل (یا بیابان) میں ہوں، اور وہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں، تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے۔لہذا تم جماعت سے نماز کو لازم پکڑو۔ اس لیے کہ بھیڑیا، اسی بکری کو کھاتا ہے، جو ریوڑ سے الگ ہو جاتی ہے۔ (سنن أبی داود، رقم:547)

خصوصاً عشا ء اور فجر کی جماعت کی اہمیت یہ ہے کہ ان نمازوں سے غیرحاضری کو منافق کی پہچان بتایا گيا ہے۔ارشاد نبوی ہے:

“إن ھاتین الصلاتین أثقل الصلوات علی المنافقین” (سنن أبی داود، رقم: 554/ وحسنہ الألبانی)

“منا فقوں پر سب سے بھاری یہ دو نمازیں ہیں۔”

ان نصوص اور ارشاد باری تعالیٰ (وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ) [البقرة: 43]

”اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔” کی بنیاد پر علماء کی ایک جماعت کے نزدیک، جماعت سے نماز فرض ہے، خواہ مسجد کے باہر کسی جگہ ہو۔ بلکہ بعض کے نزدیک بغیر جماعت کے نماز صحیح نہیں ہوتی۔

بہر حال جمہور کے نزدیک جماعت فرض علی الکفایہ اور سنت مؤکدہ ہے اور اس کا اجر وثواب اکیلے نماز سے پچیس سے ستائیس گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ارشاد نبوی ہے:

“صلاۃ الرجل فی جماعۃ تزید علی صلاتہ فی بیتہ وصلاتہ فی سوقہ خمسا وعشرین درجۃ۔ وذلک بأن أحدکم إذا توضأ فأحسن الوضوء وأتی المسجد لا یرید إلا الصلاۃ، ولاینھزہ إلا الصلاۃ، لم یخط خطوۃ إلا رفع بھا درجۃ، وحط عنہ بھا خطیئۃ، حتی یدخل المسجد، فإذا دخل المسجد، کان فی صلاۃ ما کانت الصلاۃ ھی تحبسہ، والملائکۃ یصلون علی أحدکم مادام فی مجلسہ الذی صلی فیہ، یقولون: اللھم أغفرلہ، اللھم أرحمہ، اللھم تب علیہ، ما لم یؤذیہ أویحدث” (متفق علیہ من حدیث أبی ھریرۃ)

“ آدمی کی باجماعت نماز اس کے گھر، یا بازار کی نماز سے پچیس درجہ بڑھ کرہے۔ بعض روایات میں ستائيس درجہ اور بعض میں تئیس سے اوپر ستا ئیس تک کا لفظ بھی ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ تم میں سے کوئی جب اچھی طرح وضو کر کے مسجد آئے اور نماز کے سوا کوئی اور مقصد اس کے پیش نظر نہ ہو، تو وہ جو بھی قدم اٹھا تا ہے۔ اس کے بدلے میں اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجائے۔ پھر جب وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے، تو وہ نماز ہی میں رہتا ہے، جب تک کہ نماز اسےروکے رہتی ہے۔ اور فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ اس جگہ بیٹھا رہتا ہے، جہاں اس نے نماز پڑھی تھی۔ فرشتے کہتے ہیں: اےاللہ! اس کو بخش دے، اے اللہ!اس پررحم فرما، اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما۔ وہ یہ دعابرابر کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ اس مجلس میں جہاں وہ بیٹھا ہے، کسی کو تکلیف نہ دے، یا وضو نہ توڑدے۔”

ایک دوسری حدیث میں عشاء اور فجر کی باجماعت ادائیگی کا اجر وثواب اللہ کے رسول یوں بیان فرماتے ہیں:

“من صلی العشاء فی جماعۃ کان کقیام نصف لیلۃ، ومن صلی العشاء والفجر فی جماعۃ کان کقیام لیلۃ” (مسلم، کتاب المساجد، باب:46، حدیث رقم:656)

“ جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی، گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا۔ اور جس نے عشاء اور فجر دونوں جماعت سے پڑھیں، اس نے گو یا پوری رات قیام کیا” (یعنی نفل نماز پڑھی)۔

حاضرین کرام ! نماز باجماعت کے مذکورہ مقام ومرتبہ اور اہمیت کے پیش نظر اگر کسی کےدل میں حقیقت میں ایمان ہے، تو وہ مجبوری کے سوا کبھی بھی جماعت سے غیر حاضر نہیں ہوسکتا۔ مجبوری کی صورتیں علماء نے کتاب وسنت کی روشنی میں بیان کردی ہیں۔ جیسے ایک عاقل بالغ مرد کے لیے مجبوری اس کی بیماری یا حالت سفر ہے۔ اور مطلق مجبور افراد؛ جیسے عورتیں، نابالغ بچے اورغلام ہیں۔

ایک عاقل ،بالغ تندرست مرد کےلیے بیماری اور سفرکے علاوہ بھی بعض حالات میں مجبوری ہو سکتی ہے۔ مگر خواہ مخواہ شیطانی تاویلات کے سہارے مجبوری کاشوشہ آدمی کو نہیں چھوڑ نا چاہ، بلکہ اپنے من سے پوچھ ملا سےنہ پو چھ ۔

حاضرین کرام ! ہمارے ماضی قریب اور بعید کے سبھی پیش رو ایسے ہی تھے، جو (اِن شاء اللہ) کامیاب ہوں گے۔ اور وہ انبیاء وصدیقین اور شہداء وصالحین کے ساتھ ہوں گے۔ ہم بھی کوشش کریں تاکہ ہمیں بھی ان کی رفاقت نصیب ہو۔

یہ عجیب المیہ ہے کہ ہم سے جہاز یا ٹرین نہيں چھوٹتی ہے۔ چاہے ان کا وقت دن اوررات میں جو بھی ہو۔ ہم دو چار گھنٹے پہلے ہی سے فکر اور تیاری میں لگ جا تے ہیں۔ مگر جماعت چھوٹ جاتی ہے، آخر اتنی تساہلی کیوں؟ حد تو یہ ہے کہ اب علمائے کرام اور واعظین عظام کی سستی بھی ایک بلائے عام کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جلسوں، کانفرنسوں اور جمعہ کے خطبوں میں ایسی زوردار تقریر فر ماتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں ہماری یہ ٹوٹی پھوٹی تقریر کیا حیثیت رکھتی ہے۔

خطبہ کےوقت کی تنگ دامانی کے پیش نظر، نماز باجماعت کی اہمیت اور ترک نماز پر یہ چند وعیدیں سنا کر آج میں اپنی بات یہیں پر ختم کرنا چاہتا ہوں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہیں کہ وہ تمام مسلمانوں کو صحیح مسلمان بننے کی توفیق دے اور جو صحیح مسلمان بنے اور با جماعت نماز ادا کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے، قیا مت کے روز ہمیں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ “وحسن أولئک رفیقا” وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔





متعلقہ:




مدینہ کی زیارت کی فضیلت اور اسکی جگہ کا بیان