عورت، اسلام کی نظر میں


6435
تفصیل
عورت جاہلیت میں نہایت ذلیل وحقیر چیز تھی یہاں تک کہ اسلام آیا تو اس نے اسے ایسی عزت وتکریم بخشی جس کی کوئی نظیر نہیں۔ اس نے جاہلیت کے مظالم سے اسے نجات دی اور اس کے حقوق کا ضامن وکفیل ہوا۔ اس نے عورت کو بہت سی دینی واجبات اور ثواب وعقاب میں اسے مردوں کے مساوی قرار دیا۔ چنانچہ اسے اسلام میں بہت زیادہ عزت وتکریم ملی ۔

إن الحمد لله، نحمده, ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله،

وقد قال اللہ تبارک وتعالی فی محکم تنزیلہ، أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم:

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) [النحل: 97]

“جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے۔”

وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: )إنما النساء شقائق الرجال( (رواہ أحمد وأبو داؤد والترمذی عن عائشہ، والحدیث صحیح)

دینی بھا ئيو اور اسلامی بہنو! ہم سب اللہ سبحانہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کریں یعنی اس کے حکموں کو بجا لائیں اور اس کی منع کردہ چیزوں سے باز رہیں ۔ کیوں کہ یہی وہ وصیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم کو اور ہم سے پہلے والوں کوفرمائی ہے:

(وَلَقَدۡ وَصَّيۡنَا ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ وَإِيَّاكُمۡ أَنِ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَۚ) [النساء: 131]

“اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔”

بزرگو اور دوستو! عورت انسانی معاشرہ کا نصف یا اس سے بھی بڑا حصہ ہے۔ یہ ہماری ماں بھی ہے، بیٹی بھی، بیوی بھی ہے اور بہن بھی۔ یہ ہماری عزت کی وہ بلند چوٹی اور عظمت کی وہ مضبوط چٹان ہے کہ اس کی درستگی اور دین پر اس کی استقامت کے باعث اسلام کے خلاف مکرو فریب کر نے والوں کی ماکرانہ چالیں بھی ٹکرا کر چکنا چور ہو جائيں۔ اور اگر یہ فسادیوں اور دین بیزار لوگوں کی سازشوں کا شکار ہو جائے تو شروفساد کا بہت بڑا دروازاہ کھل جائے، والعیاذ باللہ۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم عورتوں کے صحیح مقام ومرتبہ کو سمجھیں اور انہیں وہ عزت دیں جو اسلام نے انہیں دی ہے ۔ اور خود عورتیں بھی اپنے آپ کو اسی دائرہ میں رکھیں جو شریعت نے ان کے لیے مقرر کیا ہے۔ کیوں کہ یہ شریعت، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہے ۔ جو ہماری دینی ودنیوی تمام ترحاجات کی ضا من ہے۔ یقینا ً جو مقام عورتوں کو حاصل تھا یا ان کے ساتھ جس قسم کے ناروا اور ظالمانہ سلوک کیے جاتے تھے وہ اہل نظر پر مخفی نہیں ہیں ۔ چنانچہ اہل عرب بچیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ انھیں اپنے حقوق سے محروم رہ کر زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتے تھے ۔ رومن قانون کے مطابق عورت بچپن میں باپ کی اور شادی کے بعد شوہر کی مقبوضہ ہوتی تھی ۔ یونان میں عورت ورثہ میں دی جاتی اور اس کی بیع وشراء جائز تھی۔ دوسری عورت سے اپنی بیوی کو بدلا جاسکتا تھا۔ چین وجاپان میں عورتوں کو معبدوں میں داخلے پر پابندی تھی۔ بلکہ وہ مذہبی رسوم میں حصہ بھی نہیں لے سکتی تھی۔ ہندوستان میں بھی بچیوں کو عربوں کی طرح زندہ درگور کر دینے کا رواج تھا۔ شوہر کی چتاپر بھینٹ چڑھادی جاتی تھی۔

اگر کم سنی میں شادی کردی گئی اور شوہر مرگيا تو دوبارہ شادی کے حق سے ہمیشہ کے لیے محروم کردی جاتی تھی۔ عیسائی مذہب میں رومن کیتھولک فرقہ کے نزدیک عورت انجیل مقدس کو نہیں چھو سکتی تھی۔ ازیں قبیل دنیا کی تمام اقوام وملل میں عورتوں کی حالت نہایت بری اور خستہ تھی۔ اور آج کی ترقی یافتہ دنیا اور اس کی مادی چمک نے عورتوں کو ترقی اور آزادی کے نام پر اس طرح رسوا اور سرعام اس قدر ننگا کر رکھا ہے کہ بہیمیت اور شہوانیت کے بھیانک سیلاب میں انسانیت اور شرافت ہچکولے کھا رہی ہے۔ اسلام اور انسانیت کے دشمنوں نے عورتوں کو سافٹ ٹارگیٹ سمجھ کر ان کا خوب غلط استعمال کیا۔ پیسے کا لالچ دے کر ہر شعبۂ زندگی میں انہیں اتار دیا ہے۔ آج وہ دنیا کی سب سے سستی چیز ہے، جسے ننگا یا ادھ ننگا کر کے مردوں کے درمیان گھروں میں خادماؤں کی شکل میں، آفسوں میں کلرکوں کی شکل میں، اسپتالوں اور ہوائی جہازوں میں نرسوں اور میزبانوں کی صورت میں، اسی طرح بالغ لڑکوں کی معلمات اور فلموں اور ڈراموں میں اداکاراؤں کی شکل میں۔ اور قیمتی تجارتی اشیاء سے لے کر ماچس کی ڈبیا تک پر خوبصورت عورتوں کی عریاں ونیم عریاں تصویریں چھاپ کر عورتوں کی عفت وعصمت اور اس کی نسوانیت کوآج کی ماڈرن اور مہذب دنیا نے جس طرح رسوا کیا ہے دورِ جاہلیت میں بھی ایسی سنگین اور قبیح حالت نہیں پائی جاتی تھی۔ نتیجہ یہ ہےکہ آج دنیا شر وفساد اور اخلاقی انارکیوں کی آماجگاہ بن گئی۔ (العیا ذ باللہ)

جب کہ مذہب اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی مردوں کو تلقین فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ) [النساء: 19] “ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو، گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو، اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کر دے۔”

نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عورتوں سے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی:

(استوصوا بالنساء خیرا) (صحیح بخاری عن أبی ھریرۃ: 1586)

“عورتوں کے ساتھ خیر اور بھلا ئی سے پیش آنے کی وصیت قبول کرو۔”

قرآن کریم نے عورتوں کی شان کو بلند اور ان کے حقوق کو پختہ اور یقینی بناتے ہوئےاعلان کیا:

( فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ ) [آل عمران: 195]

"پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمالی کہ تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواه وه مرد ہو یا عورت میں ہرگز ضائع نہیں کرتا، تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔"

یعنی عورت مرد سے اور مرد عورت سے ہے اور کسی کا کوئی عمل صالح ضائع نہیں ہوتا۔ عمل کرنے والا خواہ مرد ہو یا عورت، پورا پورا بدلہ دیا جائےگا۔ یہی نہیں اسلام میں عورت کے علومرتبت کویوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک طویل سورت عورتوں کے نام سے قرآن کریم میں نازل ہوئی ہے جو ان کے مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔ بایں ہمہ یہ بات بھی ظاہر وباہر ہے کہ عورتیں فتنہ کا بہت بڑا ذریعہ ہیں، اور بنی اسرائیل میں رونما ہونے والا پہلا فتنہ عورتوں کے باعث ہی تھا۔ جیسا کہ صحیح مسلم حدیث:2741 میں آیا ہے۔ اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے مردوں کےلیے عورتوں کے فتنہ کا خوف محسوس کرتے ہوئے فرمایا:

(ما ترکت بعدی فتنۃ أضر علی الرجال من النساء) (رواہ البخاری ومسلم عن أسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ)

"میں نے اپنے بعد کوئی ایسا فتنہ نہیں چھوڑا جو مردوں پر عورتوں کے فتنہ سے زیادہ نقصان دہ ہو۔"

اسی وجہ سے جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا، عورتوں کے شرعی حدود کی وضاحت اور ان کے مقام ومرتبہ کا بیان بہت ضروری ہے تاکہ وہ آزادیٔ نسواں اور مرد وزن کے مساویانہ حقوق کے پر فریب نعروں سے دھوکہ نہ کھائيں ۔ اس طرح کے پروپگنڈوں کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ مسلمان عورتیں جن کا بنیادی دائرہ عمل مکمل طور پر ان کا گھر ہے، وہ گھر سے باہر نکلیں، حجاب ترک کریں، حیا کی چادر اتار پھینکیں اور اپنی عفت وکرامت اور عزت وناموس کو دفن کر دیں اور کافرات وفاجرات کی صف میں کھڑی ہو جائيں۔ آزادی نسواں کے نعروں سے عام طور پر دو طرح کی خواتین گمراہ ہوتی ہیں؛ ایک وہ جو ہیں تو پا ک دامن، لیکن اپنے اسلامی حقوق اور مقام ومرتبہ سے ناواقف ہیں، اور اعدائے اسلام ان کے ذریعہ اسلام اور مسلم معاشرہ کے تیئں جو فسادات برپا کرنا چاہتے ہیں، ان سے نابلد اور غافل ہیں۔ حق وباطل کی تمیز نہ ہونے اور پانی اور سراب کے درمیان فرق نہ کر پانے کے باعث دھوکہ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اور دوسری صنف ان خواتین کی ہے جن کے پاس دنیوی (عصری) علم ومعرفت ہے، لیکن وہ مغربیت زدہ ہیں۔ حیا باختہ ہیں، یا ان میں قبول حق وباطل دونوں کی استعداد موجود ہے۔ اب انہیں جو جتنی محنت کر کے اپنا ہمنوا بنا لے اور اپنے پیچھے چلا لے، وہ ان کے پیچھے چلنے لگتی ہیں اور ان کی ہمنوا ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ اس قسم کی اکثر عورتیں مادہ پرستی کا شکار ہیں۔ حجاب ترک کرنے اور آزادانہ اختلاط مرد وزن میں زیادہ شرم وعار محسوس نہیں کرتیں۔ دین اور آخرت سے متعلق امور ان کی زندگی میں چند مواقع پر برائے نام اور بطور رسم ورواج دیکھنے کو آتے ہیں۔ موت کے وقت تعزیت اور اظہارغم کے موقع پر تھوڑے غم کا اظہار یا چند قطرے آنسو بہا دینا، یا اسلامی مناسبات مثلا، رمضان اور حج وغیرہ کے موقعوں پر ان کاکسی قدر اسلامی امور سے دلچسپی ظاہر کرنا وغیر ہ نظر آتا ہے۔ تاہم ہدایت کا دروازہ مفتوح ہے۔ توبہ اور اللہ کی طرف پلٹنے کا راستہ آسان ہے۔ اگر ان دونوں طرح کی خواتین کو صحیح علم ومعرفت حاصل ہوجائے تو (اِن شاء اللہ)علم نافع خشیت الہٰی کا باعث ہوگا۔

( إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ) [فاطر: 28]

”اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔”

دینی بھائیو اور پردہ نشیں بہنو! مذہب اسلام سے قبل دورِ جاہلیت میں عورتوں کی درگت اور مادی اعتبار سے موجودہ ترقی یافتہ دور میں عورتوں کی بےعزتی کے مقابلہ میں اسلام نے جو عزت عورتوں کو عطا کی ہے اس کی تھوڑی سے جھلک ملاحظہ کی جائے، شاید فتنوں کے شکار مرد وزن کو اپنے نفس کے مراجعہ ومحاسبہ کی توفیق حاصل ہوجائے اور وہ دین کی طرف پلٹیں :

واللہ الھادی إلی سواء السبیل۔

پہلی بات ہم کو یہ سمجھ لینی چاہئے کہ اسلام کی نظر میں مرد وعورت پیدائشی لحاظ سے ایک ہی اصل اور بنیاد سے تعلق رکھتے ہیں۔ انسانیت میں عورت ہوبہو مرد کے مانند ہے ۔ اللہ تعالی ٰ سورۂ النساء کی پہلی ہی آیت میں دونوں کے لیے اصل خلقت کو ایک بتا تے ہوئے فرماتا ہے:

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ) [النساء: 1]

“اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔”

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(إنما النساء شقائق الرجال)

“بےشک عورتیں مردوں کے مانند ہیں۔۔”

شقائق ، شقیقہ کی جمع ہے، سگی بہن کو شقیقہ کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ سگے بھائی بہن ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ گویا جنس مرد اور جنس عورت ایک ہیں۔

دوسری بات جو مرد وزن کے درمیان مشترک ہے وہ یہ کہ ایمان اور عمل صالح جس طرح مردوں کے لیے دنیا میں پاکیزہ زندگی اور آخرت میں عذاب سے نجات کا ذریعہ ہیں، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی باعث سعادت وکرامت اور فلاح ونجات ہیں ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) [النحل: 97]

”جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے۔”

گویا ایمان وعمل کے ثمرات وفوائد دنیوی واخروی طور پر دونوں صنفوں کو برابر حاصل ہوں گے۔

تیسری بات یہ کہ جس طرح مرد حضرات عبادتوں کے پابند کیے گئے ہیں اور احکام کی بجاآوری پر اجر وثواب سے بہرہ ور ہونے کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور گناہوں کے ارتکاب پر سزاؤں کے مستحق ٹھہرائے گئے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح عورتیں بھی اسلامی عبادات کی مکلف اور ثواب کی مستحق ہیں ۔ اور اگر ان سے بھی گنا ہ سرزد ہوتے ہیں تو سزا پانے کی اہل ہیں۔ اجر وثواب اورجرم وسزا کے معاملہ میں شریعت اسلامیہ نے مرد عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔

اللہ تعالی ٰ کا فرمان ملاحظہ کیجئے:

( إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ) [الأحزاب: 35]

”بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مومن مرد اور مومن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرمانبردار عورتیں راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اپنی شرمگاه کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں، ان (سب کے) لیے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے،”

اور فرمایا:

( الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ ) [النور: 2]

”زناکار عورت و مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔”

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ ) [الحجرات: 11] "اے ایمان والو! کوئی مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائے، ممکن ہے کہ یہ اس سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں۔"

عزت وعصمت کی حفاظت کے تعلق سے فرمان الہٰی ہے:

( قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ٣٠ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ) [النور:30 - 31]

“مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت رکھیں۔ یہی ان کے لیے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔ مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے۔”

مذکورہ تمام آیات میں چوری، زنا کاری، سخریہ (مذاق اڑانے) نگاہوں کو پست رکھنے اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے یعنی زنا ولواطت سے بچنے کے معاملہ میں اور ان کی مقررہ سزاؤں کے تعلق سے مرد وعورت کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتا گیا ہے۔

چوتھی چیز یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو منحوس سمجھنے اور بچیوں کی ولادت پر رنجیدہ ہونے کو جیسا کہ قدیم جاہلیت میں تھا اور آج کے ماڈرن دور میں بھی دیکھا جاتا ہے، حرام قرار دیا ہے۔

اللہ تعالی ٰ فرماتا ہے:

( وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ٥٨ يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ) [النحل: 58 - 59]

“ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہره سیاه ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے۔ اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لیے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آه! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں”

لڑکیوں کےزندہ درگور کرنے کوفعل شنیع اور نہا یت قبیح حرکت قرار دیتے ہوئے فرمایا:

( وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ ٨ بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ ) [التكوير: 8 – 9 ]

“اور جب زنده گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائےگا کہ کس گناه کی وجہ سے وه قتل کی گئی؟”

اور دوسری آیت میں اللہ نے فرمایا کہ اس عار اور شرم سے بچنے کے لیے وہ انہیں زندہ درگور کر دیتے ہیں۔ دورِ جاہلیت میں اگر لڑکی قتل ہونے سے بچ جاتی تو بڑی ہونے کے بعد بھی ذلت اور رسوائی اس کے ساتھ ہمیشہ لگی رہتی۔

پانچویں چیز جو عورتوں کے تعلق سے سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کو تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ انہیں اپنے مورث کے مال متروکہ کا وارث بنایا ہے۔ جبکہ قبل از اسلام عورتیں حق ملکیت سے محروم تھیں۔ اور اگر آج کسی قوم اور دھرم میں حق ملکیت انہیں حاصل ہے، تویہ اسلام ہی کی دین ہے ۔ اس سلسلہ میں سورۂ النساء کی آیت نمبر7 ملاحظہ فرمائیں ( لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا ) [النساء: 7]

“ماں باپ اور خویش واقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی۔ (جو مال ماں باپ اور خویش واقارب چھوڑ کر مریں) خواه وه مال کم ہو یا زیاده (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔”

اور اس کے بعد ترکہ کی تقسیم سے متعلق آیت: 111 اور 176 ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ اسلام سے قبل خود عورت اپنے شوہر کی وفات کے بعد اس کے متروکہ اموال کا ایک حصہ سمجھی جاتی تھی اور میت کے اولیاء کے رحم وکرم پر رہتی تھی۔ چنانچہ ان میں کا کوئی اگر چاہتا تو عورت کی رضامندی کے بغیر اس سے خود شادی کر لیتا، اور اگر چاہتا، تو دوسری جگہ شادی کر دیتا اور اگر چاہتا تو بلاشادی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتا ۔ غرض کہ عورت اور اس کے اولیاء کے مقابلہ میں میت شوہر کے اولیاء عورت کے اندر تصرف کے زیادہ حقدار ہوتے۔ جیسا کہ امام بخاری وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۂ النساء کی آیت: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ) [النساء: 19] “ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو۔”

کے شان نزول میں مروی ہے۔

اسی طرح مرد عہدِ جاہلیت میں جتنی شادیا ں چاہتا بلاروک ٹوک کرتا اور عورتوں کے حقوق کی اسے مطلق پرواہ نہ ہوتی۔ قبل از اسلام طلاق کے معاملہ میں بھی بڑی بےاعتدالی تھی۔ چنانچہ شوہر بلاتعداد طلاقیں دیتا۔ جب عدت ختم ہونے کو ہوتی تو زوجیت میں پلٹا لیتا۔ نہ اچھی طرح سے بیوی بنا کر رکھتا اور نہ ہی اس کا راستہ چھوڑ تا۔ اسلام نے ایک مرد کے لیے شادیوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد چار رکھی اور عدل وانصاف کو شرط اولین قرار دیا۔ اور طلاق کے سلسلہ میں بھی نہایت عمدہ ضوابط مقرر کیے۔ چنانچہ دو مرتبہ طلاق دے کر عدت کے دوران رجعت کی جا سکتی ہے، تیسری طلاق دے دینے کے بعد زوجیت منقطع ہوجاتی ہے۔

اسلام میں عورت کو حقِ وارثت کے علاوہ، اپنے مالوں کی ملکیت اور اس میں تصرف کا پوراحق ہے، بشرطیکہ وہ عقل ورشد رکھتی ہو۔ چنانچہ وہ صدقہ وخیرات کرنے کا حق رکھتی ہے۔ شوہر کے انتخاب میں بھی اسے رائےدہی کا حق حاصل ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر اس کا ولی شادی نہیں کر سکتا۔ تاہم شادی میں ولی کی اجازت ضروری ہے کیونکہ ایک عورت، مردوں کے عادات واطوار کو بخوبی نہیں سمجھ پاتی۔ مردوں کو ان جیسے مرد ہی سمجھ سکتے ہیں۔ بسااوقات عورت غیر کفوسے شادی کرنا چاہتی ہے، بد خلق اور بددین آدمی کے اندر رغبت رکھتی ہے۔ لہذا اس کاولی ہی اس کے لیےکفو اور ہمسر شخص کا انتخاب کر سکتا ہے۔ عورت کی رضامندی اور ولی کی اجازت دونوں بیک وقت صحت نکاح کے لیے ضروری ہیں۔ اختلاف رائے کی صورت میں معاملہ قا ضی کے پاس پیش کیا جا گا اور اس کے فیصلہ کے مطابق شادی انجام پا گی۔ اسی طرح اگر کسی عورت کو اس کا شوہر ناپسند ہو اور نباہ کی صورت ممکن نہ ہو، تو وہ مرد سے علیحدگی بذریعہ خلع اور فسخ لے سکتی ہے۔ شوہر کے ساتھ ناپسندیدگی کے باوجود زندگی گذارنے پر اسےمجبور نہیں کیا جا سکتا۔

غرض کہ اسلام میں عورتوں کو بہت سے حقوق حاصل ہیں۔ قرآن کا کھلا اعلان ہے:

( وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ) [البقرة: 228] "اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ۔ ہاں مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضلیت ہے۔"

اور یہ فضیلت بھی جو ایک مرد کوایک عورت پر بعض امور مثلا، میراث، دیت، شہادت، قوامیت، جہاد میں شرکت اور جمعہ وجماعت قائم کرنے اور حکومتی ذمہ داریاں سنبھا لنے وغیرہ کے اندر حاصل ہے، تویہ مرد کی فطری قوتوں اور پیدائشی اور دماغی صلاحتیوں کی وجہ سے ہے۔ اسلام نے بنیادی طور پر عورت کو اندرونِ خانہ رہ کر باوقار طریقہ سے زندگی بسر کرنے کا سنہرا موقع عطا کیا ہے۔ اور اس کو شوہر کے گھر کی رعایت ونگہداشت اور امور ِ خانہ داری کا مکمل ذمہ دار بنایا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(والمرآۃ راعیۃ فی بیت زوجھا وھی مسؤلۃ عن رعیتھا) (متفق علیہ ابن عمر)

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔

إن الحمد لله، نحمده, ونستعينه, ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله،

محترم حضرات! تعلیم کے تعلق سے اسلام کا نظریہ بھی بالکل واضح ہے۔ اسلام نے عورتوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی ہے۔ حصول علم کے سلسلہ میں مرد وزن کے مابین فرق نہیں رکھا۔

( قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ) [الزمر: 9]

"بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟"

اس میں عورت اور مرد دونوں داخل ہیں جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی تعلیم وتر بیت کے لیے ایک دن خاص فرمایا۔چنانچہ وہ کسی ایک متعین مقام پر جمع ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تعلیم دیتے۔ جیسا کہ صحیحین میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے زریں دور میں خواتین اپنی عصمت وعفت اور وقار کے تحفظ کے ساتھ بہت سے مردوں کو معلومات بہم پہنچاتی تھیں۔ اس سلسلہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا، سعید بن المسیب کی صاحبزادی اور امام شافعی کی والدہ بہترین مثال ہیں۔ بعض حقیقت پسند غیرمسلموں نے بھی اسلامی تہذیب وثقافت اور علم کے مختلف میدانوں میں اہل اسلام کی کارگذاریوں اور عظیم خدمتوں کو سراہا ہے۔ کاش ہماری خواتین، اپنے روشن ماضی کی تاریخ دہرائيں اور اسلام کے لیے باعث عزت وافتخار بنیں۔

برادران اسلام!مذہب اسلام نے ہمیں عورتوں کی بحیثیت ماں، بیٹی، بیوی، بہن، خالہ اورپھوپھی ولادت سے لے کر وفات تک عزت وتکریم کی تلقین وتاکید فرمائی ہے۔

لڑکی کے والدین پر تعلیم وتربیت اور اس کی ضروریات کی تکمیل خوشی اور رغبت کے ساتھ کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔

ارشاد نبوی ہے:

(من ولدت لہ أنثی فلم یئدھا ولم یھنھا ولم یؤثر ولدہ یعنی -الذکر- علیھا أدخلہ اللہ بھا الجنۃ) (رواہ الحاکم فی المستدرک وصححہ ووافقہ الذھبی)

"جس کے گھر میں بچی پیداہوئی اور اس نے اس کوزندہ دفن نہیں کیا، نہ اس کی توہین کی اور نہ ہی اپنے لڑکے کو اس پر فوقیت دی، تو اللہ تعالیٰ اس لڑکی کے باعث والدین کو جنت میں داخل فرماý گا۔”

اس طرح دیگر احادیث میں بھی تین بیٹیوں اور دو بیٹیوں کی تعلیم وتر بیت اور دیگر ضروریات کی تکمیل کے سلسلہ میں لاحق ہونے والی پریشانیوں پر صبر کرنے پر جنت کی بشارت آئی ہے۔ یہی لڑ کی جب بالغ ہوتی ہے تو نہایت عزت کے ساتھ باپ کے گھر سے شوہر کے گھر رخصت ہوتی ہے۔ جب کہ خود کو مہذب سمجھنے والا معاشرہ بیٹیوں کو شاہراہ پر اپنا دوسرا ٹھکانہ تلاش کرنے اور ہرچہار جانب سے انسانی بھیڑیوں کی ہوس کا شکار ہونے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔

اسلام میں نیک بیوی کو دنیا کا سب سے بہتر مال ومتاع قرار دیا گيا ہے:

(الدنیا کلھا متاع وخیر متاع الدنیا المرآۃ الصالحۃ) (رواہ مسلم عن عبد اللہ بن عمرو)

اسلام نے ازدواجی زندگی کی بنیاد مودت اور رحمت کے مضبوط ستونوں پر رکھی ہے۔ ایسی مودت ورحمت کا حصول دوسری شریعتوں کے ذریعہ ناممکن ہے۔ سب سے کامل مومن اور سب سے بااخلاق انسان وہی ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہے۔

اگر عورت، ماں ہے تو اس کے مقام ومرتبہ کا کیا پوچھنا۔ حسن صحبت، خدمت اور رعایت ونگہداشت کے لحاظ سے ماں ہی دنیا میں سب پرمقدم ہے۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں والدین کا حق تمام دیگر رشتہ داروں کے مقابلہ میں اعلی ٰ وارفع ہے۔ بعض موقع پر جہاد فی سبیل اللہ کی شرکت سے بھی بڑی چیز خدمت والدین ہے۔ اس سلسلہ کی آیات واحادیث معروف ومشہور ہیں۔

حاصل کلام یہ کہ جو مقام ومرتبہ اسلام نے عورتوں کو بخشا ہے، اس کا عشر عشیر بھی دیگر نظامہا عالم میں موجود نہیں ہے۔ رہی بات پردے کی یا تعددِ زوجات کی تو اس کے اعلی ٰ مقاصد اور خاص ظروف واحوال ہیں، جن کے پیش نظر شریعت نے پردہ کا لازمی حکم اور ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کی اجازت ورخصت دی ہے۔ بلکہ حقیقت میں یہ اللہ تعالی ٰ کی خاص رحمت ہے جو مسلمان مردوں اور عورتوں کو اسلام کے ذریعہ حاصل ہے۔ اعدائے اسلام منفی انداز میں اسلام کے ان امور ومعاملات کو پیش کر کے ضعیف الایمان لوگوں کو کنفیوز کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ درِ پردہ یا کھلے طور پر کئی عورتوں سے بیک وقت ناجائز تعلقات رکھتے ہیں۔ بلکہ بعض تو بستر کی چادروں کی طرح روزانہ عورتیں بدلتے ہیں۔ جبکہ اسلام میں جائز طریقے پر ایک سے لے کر چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔ عدل ومساوات کی شرط کےساتھ ۔ مغربی تہذیب کی گندگيوں نے بہت سی یوروپین عورتوں کو اب یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ کسی مسلمان کی چوتھی بیوی بن کر رہنا پسند کرتی ہیں ؛لیکن مغرب کے بدبودار اور گھناؤنے سماج میں رہ کر زندگی بسر کرنا نہیں چاہتیں، جہاں وہ بستر کی چادروں کی طرح استعمال کی جاتی ہیں۔ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔اس موضوع پر مختلف زبانوں میں کتابیں اور رسالے دستیاب ہیں۔ بہرحال ہمیں بحیثیت مسلمان شریعت کے دائرہ میں اپنے کو رکھنا چاہئے۔اسی میں ہمارے لیے دین ودنیا کی بھلائی اور سعادت وکامرانی مضمر ہے۔

وصلوا علی النبی المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فإن اللہ تعالی یقول:

) إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 56 ) [الأحزاب: 56]





متعلقہ:




Mohamed Seddik El Menchaoui - Quran Downloads